Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿30﴾
۔ ( واقعی ) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے ( یہ کہتے ہوئے ) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو ( بلکہ ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو ۔
ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملىكة الا تخافوا و لا تحزنوا و ابشروا بالجنة التي كنتم توعدون
Indeed, those who have said, "Our Lord is Allah " and then remained on a right course - the angels will descend upon them, [saying], "Do not fear and do not grieve but receive good tidings of Paradise, which you were promised.
( Waqaee ) jinn logon ney kaha humara perwardigar Allah hai phir iss per waeem rahey unn kay pass farishtay ( yeh kehtay huyey ) aatay hain kay tum kuch bhi andesha aur ghum na kero ( bulkay ) iss jannat ki bisharat sunn lo jiss ka tum wada diyey gayey ho.
۔ ( دوسری طرف ) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے ، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے ( یہ کہتے ہوئے ) اتریں گے کہ : نہ کوئی خوف دل میں لاؤ ، نہ کسی بات کا غم کرو ، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ( ف٦۸ ) ان پر فرشتے اترتے ہیں ( ف٦۹ ) کہ نہ ڈرو ( ف۷۰ ) اور نہ غم کرو ( ف۷۱ ) اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ( ف۷۲ )
جن لوگوں32 نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے 33 ، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں 34 اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو ، نہ غم کرو 35 ، اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔
بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے ، پھر وہ ( اِس پر مضبوطی سے ) قائم ہوگئے ، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :32 یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روئے سخن مڑتا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :33 یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے ، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا ، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی ، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ۔ توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے ، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اکابر صحابہ نے اس طرح کی ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قد قالھا الناس ثم کفر اکثرھم ، فمن مات علیھا فھو ممن استقام ۔ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا ، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گئے ۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا ( ابن جریر ، نسائی ابن ابی حتم ) ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکوا باللہ شیئاً ، لَمْ یَلتفتوا الٰی الٰہٍ غیرہ ۔ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی ( ابن جریر ) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا ، خدا کی قسم ، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے ، لومڑیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ( ابن جریر ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا ( کشاف ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ( کشاف ) سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :34 فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں ۔ اگرچہ اللہ جل شانہ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے ، لیکن بالعموم اہل ایمان پر ، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے ، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت ، یا قبر ، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے ۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے ، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو ، اور ان کی ہمت بندھے ، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں ، اور قبر ( عالم برزخ ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتدائے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے ، لیکن ان کی یہ معیت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے ۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو ، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہاری سرداری محفوظ رہے گی ۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :35 یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں ، ان سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں ، ان پر کوئی رنج نہ کرو ، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے ۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں ، کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے ، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ یہاں ہم تمہارے لیے چین ہی چین ہے ، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔
اسقامت اور اس کا انجام ۔ جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا ۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرکے پھر کفر کر لیا ۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی ۔ ( نسائی وغیرہ ) حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ نے فرمایا تم نے اسے غلط سمجھایا ۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کرکے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کونسی ہے؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ توحید اللہ پر تاعمر قائم رہنا ۔ حضرت فاروق اعظم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر ۔ ابن عباس فرماتے ہیں فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ حضرت قتادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ ۔ اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما ۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص حضرت ابو العالیہ نے کہا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلایئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔ آپ نے فرمایا زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا ۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے؟ تو آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا ۔ ( مسلم وغیرہ ) امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ، ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بےخوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو ۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔ تمہیں ہم خوش خبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف ۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے ۔ حضرت ثابت جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے ۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا ۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہوگا ۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائیکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے ۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا ۔ جو خواہش ہوگی پوری ہوگی ، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت ابو ہریرہ کی ملاقات ہوتی ہے تو حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے ۔ اس پر حضرت سعید نے پوچھا کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے؟ فرمایا ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی ۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہوگا ۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں دیکھو گے ۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ۔ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر؟ کہے گا ہاں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی ۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لئے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں ۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہوگی ۔ بلکہ انعام ہوگا ۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں ۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہوگا ۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ ترو تازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقینا ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے ۔ ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں ۔