Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاِمَّا يَنۡزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿36﴾
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ۔
و اما ينزغنك من الشيطن نزغ فاستعذ بالله انه هو السميع العليم
And if there comes to you from Satan an evil suggestion, then seek refuge in Allah . Indeed, He is the Hearing, the Knowing.
Aur aar shetan ki taraf say koi waswasa aaye to Allah ki panah talab kero. Yaqeenan woh boht hi sunnay wala jannay wala hai.
اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کبھی کوئی کچوکا لگے تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو ( 15 ) بیشک وہ ہر بات سننے والا ، ہر بات جاننے والا ہے
اور اگر تجھے شیطان کا کوئی کونچا ( تکلیف ) پہنچے ( ف۸۲ ) تو اللہ کی پناہ مانگ ( ف۸۳ ) بیشک وہی سنتا جانتا ہے ،
اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو ، 40 وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے 41 ۔
اور ( اے بندۂ مومن! ) اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آجائے تو اﷲ کی پناہ مانگ لیا کر ، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40 شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی ، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربر آوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب ، برائی یک طرفہ نہیں ہے ، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے ۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے ، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت ، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے ، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو ، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے ۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو ۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہرگز برداشت نہ کی جانی چاہیے ، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے ، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نامناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے ۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا ۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا ۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے ، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے ۔ اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا ۔ حضرت ابو بکر خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے ۔ آخر کار جناب صدیق کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی ۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے ، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے ، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا جب تک تم خاموش تھے ، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا ، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا ۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :41 مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے ۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے ۔ یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے ۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۱٤۹ تا ۱۵۳ ، النحل ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۰ ، العنکبوت ، ۸۱ ۔ ۸۲ )