Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَوۡ جَعَلۡنٰهُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِيًّا لَّقَالُوۡا لَوۡلَا فُصِّلَتۡ اٰيٰتُهٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِىٌّ وَّعَرَبِىٌّ‌  ؕ قُلۡ هُوَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هُدًى وَشِفَآءٌ‌  ؕ وَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ فِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرٌ وَّهُوَ عَلَيۡهِمۡ عَمًى‌ ؕ اُولٰٓٮِٕكَ يُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ‏ ﴿44﴾
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو ( بہرہ پن اور ) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں ۔
و لو جعلنه قرانا اعجميا لقالوا لو لا فصلت ايته ءاعجمي و عربي قل هو للذين امنوا هدى و شفاء و الذين لا يؤمنون في اذانهم وقر و هو عليهم عمى اولىك ينادون من مكان بعيد
And if We had made it a non-Arabic Qur'an, they would have said, "Why are its verses not explained in detail [in our language]? Is it a foreign [recitation] and an Arab [messenger]?" Say, "It is, for those who believe, a guidance and cure." And those who do not believe - in their ears is deafness, and it is upon them blindness. Those are being called from a distant place.
Aur agar hum issay ajami zaban ka quran banatay to kehtay kay iss ki aayaten saaf saaf biyan kiyon nahi ki gayen? Yeh kiya kay ajami kitab aur aap arabi rasool? Aap keh dijiyey! Kay yeh to eman walon kay liye hidayat-o-shifa hai aur jo eman nahi latay unn kay kaano mein to ( behra-pan aur ) bojh hai aur yeh unn per andha-pan hai yeh woh log hain jo kissi boht door daraz jagah say pukaray jarahey hain.
اور اگر ہم اس ( قرآن ) کو عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ : اس کی آیتیں کھول کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں؟ یہ کیا بات ہے کہ قرآن عجمی ہے اور پیغمبر عربی؟ کہہ دو کہ جو لوگ ایمان لائیں ، ان کے لیے یہ ہدایت اور شفا کا سامان ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ، ان کے کانوں میں ڈاٹ لگی ہوئی ہے اور یہ ( قرآن ) ان کے لیے اندھیرے میں بھٹکنے کا سامان ہے ۔ ایسے لوگوں کو کسی دور دراز جگہ سے پکارا جا رہا ہے ( 19 )
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن کرتے ( ف۱۰۱ ) تو ضرور کہتے کہ اس کی آیتیں کیوں نہ کھولی گئیں ( ف۱۰۲ ) کیا کتاب عجمی اور نبی عربی ( ف۱۰۳ ) تم فرماؤ وہ ( ف۱۰٤ ) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے ( ف۱۰۵ ) اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ ( روئی ) ہے ( ف۱۰٦ ) اور وہ ان پر اندھا پن ہے ( ف۱۰۷ ) گویا وہ دور جگہ سے پکارے جاتے ہیں ( ف۱۰۸ )
اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی 54 ۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے ، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے ۔ ان کا حال تو ایسا ہے جیسے ان کو دور سے پکارا جا رہا ہو 55 ۔ ع
اور اگر ہم اس ( کتاب ) کو عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو یقیناً یہ کہتے کہ اِس کی آیتیں واضح طور پر بیان کیوں نہیں کی گئیں ، کیا کتاب عجمی ہے اور رسول عربی ہے ( اِس لئے اے محبوبِ مکرّم! ہم نے قرآن بھی آپ ہی کی زبان میں اتار دیا ہے ۔ ) فرما دیجئے: وہ ( قرآن ) ایمان والوں کے لئے ہدایت ( بھی ) ہے اور شفا ( بھی ) ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے اُن کے کانوں میں بہرے پن کا بوجھ ہے وہ اُن کے حق میں نابینا پن ( بھی ) ہے ( گویا ) وہ لوگ کسی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :54 یہ اس ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا جا رہا تھا کفار کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عرب ہیں ، عربی ان کی مادری زبان ہے ، وہ اگر عربی میں قرآن پیش کرتے ہیں تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ ان پر خدا نے نازل کیا ہے ۔ ان کے اس کلام کو خدا کا نازل کیا ہوا کلام تو اس وقت مانا جا سکتا تھا جب یہ کسی ایسی زبان میں یکایک دھواں دھار تقریر کرنا شروع کر دیتے جسے یہ نہیں جانتے ، مثلاً فارسی یا رومی یا یونانی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ان کی اپنی زبان میں قرآن بھیجا گیا ہے جسے یہ سمجھ سکیں تو ان کو یہ اعتراض ہے کہ عرب کے ذریعہ سے عربوں کے لیے عربی زبان میں یہ کلام کیوں نازل کیا گیا ۔ لیکن اگر کسی دوسری زبان میں یہ بھجا جاتا تو اس وقت یہی لوگ یہ اعتراض کرتے کہ یہ معاملہ بھی خوب ہے ۔ عرب قوم میں ایک عرب کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، مگر کلام اس پر ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے جسے نہ رسول سمجھتا ہے نہ قوم ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :55 دور سے جب کسی کو پکارا جاتا ہے تو اس کے کان میں ایک آواز تو پڑتی ہے مگر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے ۔ یہ ایسی بے نظیر تشبیہ ہے جس سے ہٹ دھرم مخالفین کے نفسیات کی پوری تصویر نگاہوں کے سامنے کھچ جاتی ہے ۔ فطری بات ہے کہ جو شخص کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہوتا اس سے اگر آپ گفتگو کریں تو وہ اسے سنتا ہے ، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور معقول بات ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کو قبول کر لیتا ہے ۔ اس کے برعکس جو شخص آپ کے خلاف نہ صرف تعصب بلکہ عناد اور بغض رکھتا ہو اس کو آپ اپنی بات سمجھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، وہ سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے گا ۔ آپ ساری بات سن کر بھی اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ آپ اتنی دیر تک کیا کہتے رہے ہیں ۔ اور آپ کو بھی یوں محسوس ہو گا کہ جیسے آپ کی آواز اس کے کان کے پردوں سے اچٹ کر باہر ہی باہر گزرتی رہی ہے ، دل اور دماغ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پا سکی ۔
قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین ۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے ۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے؟ اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ؟ حضرت حسن بصری کی قرأت ! عجمی ہے ۔ سعید بن جبیر بھی یہی مطلب بیان کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفا ہے ۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہو جاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو ۔ نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو اور آیت میں ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ١٧١؁ ) 2- البقرة:171 ) یعنی ، کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا ۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے؟ حضرت ضحاک نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک لبیک پکارا آپ نے فرمایا کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے؟ اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ نے یہی جملہ پڑھا ( اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 44؀ۧ ) 41- فصلت:44 ) ( ابن ابی حاتم ) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا ۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا ۔ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ کو بھی صبر کرنا چاہئے چونکہ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے ۔ اس لئے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں ۔ ابھی ہی ہلاک کر دیئے جاتے ۔ یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں ۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔