Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِيۡهِ‌ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ وَاِنَّهُمۡ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ مُرِيۡبٍ‏ ﴿45﴾
یقیناً ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب دی تھی ، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر ( وہ ) بات نہ ہوتی ( جو ) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے تو ان کے درمیان ( کبھی کا ) فیصلہ ہو چکا ہوتا یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بے چین کرنے والے شک میں ہیں ۔
و لقد اتينا موسى الكتب فاختلف فيه و لو لا كلمة سبقت من ربك لقضي بينهم و انهم لفي شك منه مريب
And We had already given Moses the Scripture, but it came under disagreement. And if not for a word that preceded from your Lord, it would have been concluded between them. And indeed they are, concerning the Qur'an, in disquieting doubt.
Yaqeenan hum ney Musa ( alh-e-salam ) ko kitab di thi so uss mein bhi ikhtilaf kiya gaya aur agar ( woh ) baat na hoti ( jo ) aap kay rab ki taraf say pehlay hi muqarrar ho chuki hai to unkay darmiyan ( kabhi ka ) faisla ho chuka hota yeh log to iss kay baray mein boht sakht bey-shain kerney walay shak mein hain.
اور ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی ، پھر اس میں بھی اختلاف ہوا ۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی ، تو ان لوگوں کا معاملہ چکا ہی دیا گیا ہوتا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے ان کو خلجان میں ڈال رکھا ہے
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی ( ف۱۰۹ ) تو اس میں اختلاف کیا گیا ( ف۱۱۰ ) اور اگر ایک بات تمہارے رب کی طرف سے گزر نہ چکی ہوتی ( ف۱۱۱ ) تو جبھی ان کا فیصلہ ہوجاتا ( ف۱۱۲ ) اور بیشک وہ ( ف۱۱۳ ) ضرور اس کی طرف سے ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں ،
اس سے پہلے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کے معاملے میں بھی یہی اختلاف ہوا تھا 56 ۔ اگر تیرے رب نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر دی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا 57 ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں 58 ۔
اور بے شک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو کتاب عطا فرمائی تو اس میں ( بھی ) اختلاف کیا گیا ، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فرمان پہلے صادر نہ ہو چکا ہوتا تو اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور بے شک وہ اس ( قرآن ) کے بارے میں ( بھی ) دھوکہ دینے والے شک میں ( مبتلاء ) ہیں
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :56 یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تل گئے تھے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :57 اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہو تاکہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :58 اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے ، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے ۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد ، ان کے نفس کی خواہشات ، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں ۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے ، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے ، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو ، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے تم پر ، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے ، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے ، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے ، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا ۔