Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِلَيۡهِ يُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَةِ‌ؕ وَمَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَكۡمَامِهَا وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهٖ‌ؕ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ اَيۡنَ شُرَكَآءِىۡۙ قَالُـوۡۤا اٰذَنّٰكَۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَهِيۡدٍ‌ۚ‏ ﴿47﴾
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے اور جس دن اللہ تعالٰی ان ( مشرکوں ) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں ، وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں ۔
اليه يرد علم الساعة و ما تخرج من ثمرت من اكمامها و ما تحمل من انثى و لا تضع الا بعلمه و يوم يناديهم اين شركاءي قالوا اذنك ما منا من شهيد
To him [alone] is attributed knowledge of the Hour. And fruits emerge not from their coverings nor does a female conceive or give birth except with His knowledge. And the Day He will call to them, "Where are My 'partners'?" they will say, "We announce to You that there is [no longer] among us any witness [to that]."
Qayamat ka ilm Allah hi ki taraf lotaya jata hai aur jo jo phal apnay shagoofon mein say nikaltay hain aur jo madah hamal say hoti hai aur jo bachay woh janti ( peda kerti ) hai sab ka ilm ussay hai aur jiss din Allah Taalaa inn ( mushrikon ) ko bula ker daryaft farmaye ga meray shareek kahan hain woh jawab den gay kay hum ney to tujhay keh sunaya kay hum mein say to koi iss ka gawah nahi.
قیامت کے کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے ۔ اور اللہ کے علم کے بغیر نہ پھلوں میں سے کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نکلتا ہے اور نہ کسی مادہ کو حمل ٹھہرتا ہے ، اور نہ اس کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے ، اور جس دن وہ ان ( مشرکوں ) کو پکارے گا ، کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ تو وہ کہیں گے کہ : ہم تو آپ سے یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اب اس بات کا گواہ نہیں ہے ( کہ آپ کا کوئی شریک ہے )
قیامت کے علم کا اسی پر حوالہ ہے ( ف۱۱٤ ) اور کوئی پھل اپنے غلاف سے نہیں نکلتا اور نہ کسی مادہ کو پیٹ رہے اور نہ جنے مگر اس کے علم سے ( ف۱۱۵ ) اور جس دن انہیں ندا فرمائے گا ( ف۱۱٦ ) کہاں ہیں میرے شریک ( ف۱۱۷ ) کہیں گے ہم تجھ سے کہہ چکے ہیں کہ ہم میں کوئی گواہ نہیں ( ف۱۱۸ )
اس ساعت 60 کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے 61 ، وہی ان سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں ، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے 62 ۔ پھر جس روز وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے ، ہم عرض کر چکے ہیں ، آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے 63 ۔
اسی ( اللہ ) کی طرف ہی وقتِ قیامت کے علم کا حوالہ دیا جاتا ہے ، اور نہ پھل اپنے غلافوں سے نکلتے ہیں اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ وہ بچہ جنتی ہے مگر ( یہ سب کچھ ) اُس کے علم میں ہوتا ہے ۔ اور جس دن وہ انہیں ندا فرمائے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں ، ( تو ) وہ ( مشرک ) کہیں گے: ہم آپ سے عرض کئے دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ( کسی کے آپ کے ساتھ شریک ہونے پر ) گواہ نہیں ہے
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :60 اس ساعت سے مراد قیامت ہے ، یعنی وہ گھڑی جب بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جائے گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :61 یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی ۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :62 اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے ، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے ، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے ، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے ۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے ۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہاں پڑے ہو ، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی تھی ۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمد ۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے ۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فما اعددت لھا ؟ بندہ خدا ، وہ تو بہرحال آنی ہی ہے ۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :63 یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا ۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے ۔ ہم عرض کر چکے ہیں کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے ، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے ۔
علم الٰہی کی وسعتیں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں تمام انسانوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے ( اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا 44؀ۭ ) 79- النازعات:44 ) یعنی قیامت کب ہو گی ؟ اس کے علم کا مدار تیرے رب کی طرف ہی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا آیت ( لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٧؁ ) 7- الاعراف:187 ) مطلب یہی ہے کہ قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے ۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Ǽ۝ڎڎ ) 34- سبأ:3 ) ایک اور آیت میں ہے ( وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) یعنی جو پتہ جھڑتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ ہر مادہ کو جو حمل رہتا ہے اور رحم جو کچھ گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے اس کے پاس ہر چیز کا اندازہ ہے ۔ جس قدر عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں وہ بھی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ایسا کوئی کام نہیں جو اللہ پر مشکل ہو ۔ قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے ۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے ، قیامت والے ان کے معبودان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے ۔ اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عزاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53؀ۧ ) 18- الكهف:53 ) یعنی گنہگار لوگ جہنم دیکھ لیں گے ۔ اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔