Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
لَا يَسۡـَٔـمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَيۡرِ وَاِنۡ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَـُٔـوۡسٌ قَنُوۡطٌ‏ ﴿49﴾
بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے ۔
لا يسم الانسان من دعاء الخير و ان مسه الشر فيوس قنوط
Man is not weary of supplication for good [things], but if evil touches him, he is hopeless and despairing.
Bhalaee kay mangney say insan thakta nahi aur agar issay koi takleef phonch jaye to mayyus aur na umeed hojata hai.
انسان کا حال یہ ہے کہ وہ بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی برائی چھو جائے تو ایسا مایوس ہوجاتا ہے کہ ہر امید چھوڑ بیٹھتا ہے
آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اکتاتا ( ف۱۲۱ ) اور کوئی برائی پہنچے ( ف۱۲۲ ) تو ناامید آس ٹوٹا ( ف۱۲۳ )
انسان کبھی بھلائی کی دعاء مانگتے نہیں تھکتا 65 ، اور جب کوئی آفت اس پر آ جاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے ،
انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اسے برائی پہنچ جاتی ہے تو بہت ہی مایوس ، آس و امید توڑ بیٹھنے والا ہو جاتا ہے
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :65 بھلائی سے مراد ہے خوشحالی ، کشادہ رزق ، تندرستی ، بال بچوں کی خیر وغیرہ ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے ، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔ بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑ گڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے ۔
انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا ، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا ، میں اسی کے لائق تھا ، اب اس نعمت پر پھولتا ہے ، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے ۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے ۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے ( كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى Č۝ۙ ) 96- العلق:6 ) یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا ۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا ۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے جیسے فرمایا آیت ( فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 39؀ ) 51- الذاريات:39 ) اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں ۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں ۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 12 ؀ ) 10- یونس:12 ) ، جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔