Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَمَا اخۡتَلَـفۡتُمۡ فِيۡهِ مِنۡ شَىۡءٍ فَحُكۡمُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبِّىۡ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُۖ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ‏ ﴿10﴾
اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالٰی ہی کی طرف ہے ، یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں ۔
و ما اختلفتم فيه من شيء فحكمه الى الله ذلكم الله ربي عليه توكلت و اليه انيب
And in anything over which you disagree - its ruling is [to be referred] to Allah . [Say], "That is Allah , my Lord; upon Him I have relied, and to Him I turn back."
Aur jiss jiss cheez mein tumhara ikhtilaf ho uss ka faisla Allah Taalaa hi ki taraf hai yehi Allah mera rab hai jiss per mein ney bharosa ker rakha hai aur jiss ki taraf mein jhukta hun.
اور تم جس بات میں بھی اختلاف کرتے ہو ، اس کا فیصلہ اللہ ہی کے سپرد ہے ، لوگو ! وہی اللہ ہے جو میرا پروردگار ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے ، اور اسی سے میں لو لگاتا ہوں ۔
تم جس بات میں ( ف۱۵ ) اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے ( ف۱٦ ) یہ ہے اللہ میرا رب میں نے اس پر بھروسہ کیا ، اور میں اس کی طرف رجوع لاتا ہوں ( ف۱۷ )
تمہارے 13 درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو ، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے 14 ۔ وہی اللہ میرا 15 رب ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں 16
اور تم جس اَمر میں اختلاف کرتے ہو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ( سے ) ہوگا ، یہی اللہ میرا رب ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :13 اس پورے پیراگراف کی عبارت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے ، لیکن اس میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ گویا اللہ جل شانہ اپنے نبی کو ہدایت دے رہا ہے کہ تم یہ اعلان کرو ۔ اس طرح کے مضامین قرآن مجید میں کہیں تو قُل ( اے نبی ، کہو ) سے شروع ہوتے ہیں ، اور کہیں اس کے بغیر ہی شروع ہو جاتے ہیں ، صرف انداز کلام بتا دیتا ہے کہ یہاں متکلم اللہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہے ۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کلام اللہ کا ہوتا ہے اور متکلم اہل ایمان ہوتے ہیں ، جیسے مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے ، یا متکلم فرشتے ہوتے ہیں ، جیسے مثلاً سورہ مریم 24 ۔ 25 میں ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :14 یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے ۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں ، وہ غلطی کرتے ہیں ۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے ۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند مذہبی مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں ، وہ بھی غلطی پر ہیں ۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے ۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا ، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا ، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے ، معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط ۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ ( النساء ۔ 59 ) ، اور مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ( الاحزاب ۔ 36 ) ، اور اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَ ( الاعراف ۔ 3 ) پھر جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے ، بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں ، خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کو کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر آتی ہو ۔ یہ مضمون آگے آیت 24 میں بھی آ رہا ہے ، اور اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حواشی ۳٤ ۔ ٦۰ ابراہیم ، حواشی ۲٦ ۔ ۳٤ تا ٤۰ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۱۰۰ ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۱۵ تا ۱۸ ۔ ٤٤ تا٤٦ ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :15 یعنی جو اختلافات کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :16 یہ دو فعل ہیں جن میں سے ایک بصیغۂ ماضی بیان کیا گیا ہے اور دوسرا بصیغۂ مضارع جس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ صیغہ ماضی میں فرمایا میں نے اس پر بھروسہ کیا ، یعنی ایک دفعہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر لیا کہ جیتے جی مجھے اسی کی مدد ، اسی کی رہنمائی ، اسی کی حمایت و حفاظت ، اور اسی کے فیصلے پر اعتماد کرنا ہے ۔ پھر صیغہ مضارع میں فرمایا میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں یعنی جو معاملہ بھی مجھے اپنی زندگی میں پیش آتا ہے ، میں اس میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتا ہوں ۔ کوئی مصیبت ، تکلیف ، یا مشکل پیش آتی ہے تو کسی کی طرف نہیں دیکھتا ، اس سے مدد مانگتا ہوں ۔ کوئی خطرہ پیش آتا ہے تو اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اس کی حفاظت پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو اس سے رہنمائی طلب کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اس کا حل یا حکم تلاش کرتا ہوں ۔ اور کسی سے نزاع ہوتی ہے تو اسی کی طرف دیکھتا ہوں کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کرے گا اور یقین رکھتا ہوں کہ جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہی حق ہو گا ۔