Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
شَرَعَ لَـكُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوۡحًا وَّالَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ وَمَا وَصَّيۡنَا بِهٖۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى وَعِيۡسٰٓى اَنۡ اَقِيۡمُوا الدِّيۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِيۡهِ‌ؕ كَبُـرَ عَلَى الۡمُشۡرِكِيۡنَ مَا تَدۡعُوۡهُمۡ اِلَيۡهِ‌ ؕ اَللّٰهُ يَجۡتَبِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ يُّنِيۡبُ‏ ﴿13﴾
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو حکم دیا تھا اور جو ( بذریعہ وحی ) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے ، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہم السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو ( ان ) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔
شرع لكم من الدين ما وصى به نوحا و الذي اوحينا اليك و ما وصينا به ابرهيم و موسى و عيسى ان اقيموا الدين و لا تتفرقوا فيه كبر على المشركين ما تدعوهم اليه الله يجتبي اليه من يشاء و يهدي اليه من ينيب
He has ordained for you of religion what He enjoined upon Noah and that which We have revealed to you, [O Muhammad], and what We enjoined upon Abraham and Moses and Jesus - to establish the religion and not be divided therein. Difficult for those who associate others with Allah is that to which you invite them. Allah chooses for Himself whom He wills and guides to Himself whoever turns back [to Him].
Allah Taalaa ney tumharay liye wohi deen muqarrar ker diya hai jiss kay qaeem kerney ka uss ney Nooh ( alh-e-salam ) ko hukum diya tha aur jo ( ba-zariya wahee ) hum ney teri taraf bhej di hai aur jiss ka takeedi hukum hum ney Ibrahim aur Musa aur Essa ( alheem-us-salam ) ko diya tha kay iss deen ko qaeem rakhna aur iss mein phoot na dalna jiss cheez ki taraf aap ehen bula rahey hain who to ( inn ) mushrikon per giran guzarti hai Allah Taalaa jissay chahata hai apna bargazeedah banata hai aur jo bhi uss ki taraf rujoo keray who uss ki sahih rehnumaee kerta hai.
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جو ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو ، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ ( پھر بھی ) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گذرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوتے دے رہے ہو ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے ۔
تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا ( ف۲۲ ) اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی ( ف۲۳ ) اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا ( ف۲٤ ) کہ دین ٹھیک رکھو ( ف۲۵ ) اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو ( ف۲٦ ) مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ ( ف۲۷ ) جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہو ، اور اللہ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے ( ف۲۸ ) اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اسے جو رجوع لائے ( ف۲۹ )
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو دیا تھا ، اور جسے ( اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے ، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ( علیہ السلام ) اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ20 ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم انہیں دعوت دے رہے ہو ۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے ، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے 21
اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح ( علیہ السلام ) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسٰی و عیسٰی ( علیھم السلام ) کو دیا تھا ( وہ یہی ہے ) کہ تم ( اِسی ) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو ، مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ ( توحید کی بات ) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں ۔ اللہ جسے ( خود ) چاہتا ہے اپنے حضور میں ( قربِ خاص کے لئے ) منتخب فرما لیتا ہے ، اور اپنی طرف ( آنے کی ) راہ دکھا دیتا ہے ( ہر ) اس شخص کو جو ( اللہ کی طرف ) قلبی رجوع کرتا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :20 یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی ۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں ، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیش کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھے ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے ، اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں ۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی ۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں ، سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں ، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں ۔ یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جائے: فرمایا کہ شَرَعَ لَکُمْ ، مقرر کیا تمہارے لیے شرع کے لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں ، اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا ہے ۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ سے تشریع کا لفظ قانون سازی ( Lagislation ) کا ، شرع اور شریعت کا لفظ قانون ( Law ) کا شارع کا لفظ واضح قانون ( Law giver ) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے ، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے ، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون و ضابطہ دے ۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے ۔ پھر فرمایا مِنَ الدِّیْنِ ، از قسم دین ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ از آئین کیا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ دین کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورہ زُمُر ، حاشیہ نمبر 3 میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں ۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے ۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش ( Recommendation ) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے ۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو ۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں ، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے ، اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے ، اس دین کا لازمی جز ہے ، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے ، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند ( Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے قائم کنید دین را کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے قائم رکھو دین کو ۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں ۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی ، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے ۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں ۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں ۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو ۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا ، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے ۔ اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھانا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا ۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا ۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی ، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا ۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے ۔ مسجدیں ہوں ۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں ۔ امام اور خطیب مقرر ہوں ۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے ۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا ۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے ۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے ۔ اب دوسرے سوال کو لیجیے ۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے ، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً ، اس لیے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے ، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا ۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے ، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے ۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے ، آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں ، یا شرعی احکام بھی ۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں : 1 ) وَمَآ اُمِرُؤٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ ( البیّنہ ، آیت 5 ) ۔ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دیں ، اور یہی راست رو ملت کا دین ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں ۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت ، یہی اس کے اجزاء ، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ ، یہی اس کے اوقات ، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں ۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب ، یہی اس کی شرحیں ، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں ۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے ۔ 2 ) حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّمُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہ ........ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ ( المائدہ ۔ 3 ) تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، اور وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو ، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب کام فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ................. اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت بھی دین ہی ہیں ۔ 3 ) قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ( التوبہ ۔ 29 ) ۔ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں ۔ 4 ) اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأخُذْکُمْ بھِمَا رَأفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( النّور 20 ) زانیہ عورت اور مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو مَا کَانَ لِیَأخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ ( یوسف ۔ 76 ) یوسف ( علیہ السلام ) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے ۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو ۔ یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے ( مثلاً زنا ، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا ، وغیرہ ) ، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے ( مثلاً عمل قوم لوط ، اور لین دین میں قوم شعیب کا رویہ ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے ، اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے ، مثلاً میراث کے احکام ، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْھَا وَلَہ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ( النساء ۔ 14 ) جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا ، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ۔ اسی طرح جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے ، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت ، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت ، جوئے کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت ، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے ۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ، مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے ، اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیم کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی ۔ دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً ( ہم نے تم میں سے ہر امت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی ) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی ، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا ، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے ۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی ۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت ہے ۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے ۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے ۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے ۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے ، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا ، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا ۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے ، مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے ۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا ، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے ۔ انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے ۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری ، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں ، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللہُ ( النساء ۔ 105 ) ۔ اے نبی ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے ( التوبہ ۔ 60 ۔ 103 ) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے ( البقرہ 275 ۔ 279 ) وہ اسی صورت میں رو بعمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم ( البقرہ ۔ 178 ) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ( المائدہ ۔ 38 ) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم ( النور ۔ 2 ۔ 4 ) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا ۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم ( لبقرہ ۔ 190 ۔ 216 ) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے ۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ( التوبہ 29 ) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے ۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے ۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرئیل ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۹ ۔ ۱۰۱ ، جلد سوم ، القصص ، ۱۰٤ ۔ ۱۰۵ ، الروم ، ۱ تا ۳ ، جلد چہارم ، الصافات ، آیات ۱۷۱ تا ۱۷۹ ، حواشی ۹۳ ۔ ۹٤ ، صٓ ، دیباچہ اور آیت ۱۱ مع حاشیہ ۱۲ ) سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا ۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار ، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن ، معیشت و معاشرت ، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پورے کام کو اقامت دین کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا ، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں ۔ یا تو معاذاللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے ، مگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ اقامت دین سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا ، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ( آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ) ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے اقامت دین کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے ۔ اقامت دین کا حکم دینے کے بعد ، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۔ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ، یا اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کی کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان کا مدار ہے ، پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جائے ۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے ۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جائے ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جائے ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل کر کے اس کا حلیہ بگاڑا جائے ، مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جائے اور جو چیز حد سے حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جائے ۔ اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا ، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گئے جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی ۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے ۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۲۲۰ ، آل عمران ، حواشی ۱٦ ۔ ۱۷ ، النساء ۲۱۱تا ۲۱٦ ، المائدہ ۱۰۱ ، الانعام ۱٤۱ ، جلد دوم ، النحل ، حواشی ۱۱۷ تا ۱۲۱ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۸۹ تا ۹۱ ، الحج ، حواشی ۱۱٤ تا ۱۱۷ ، المومنون ٤۵ تا ٤۸ ، القصص ، ۷۲ تا ۷٤ ، الروم ، ۵۰ ۔ ۵۱ ) ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :21 یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت 8 ۔ 9 میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر 11 میں کر چکے ہیں ۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں ۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے ۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت کو پائے اور کوئی اس پر خار کھائے ۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے ۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے ۔
امت محمدیہ پر شریعت الٰہی کا انعام اللہ تعالیٰ نے جو انعام اس امت پر کیا ہے اس کا ذکر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارے لئے جو شرع مقرر کی ہے وہ ہے جو حضرت آدم کے بعد دنیا کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے آخری پیغمبر اور ان کے درمیان کے اولو العزم پیغمبروں کی تھی ۔ پس یہاں جن پانچ پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے انہی پانچ کا ذکر سورہ احزاب میں بھی کیا گیا ہے فرمایا آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا Ċ۝ۙ ) 33- الأحزاب:7 ) ، وہ دین جو تمام انبیاء کا مشترک طور پر ہے وہ اللہ واحد کی عبادت ہے جیسے اللہ جل و علا کا فرمان ہے آیت ( وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان سب کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ معبود میرے سوا کوئی نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو حدیث میں ہے ہم انبیاء کی جماعت آپس میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے جیسے علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے الغرض احکام شرع میں گو جزوی اختلاف ہو ۔ لیکن اصولی طور پر دین ایک ہی ہے اور وہ توحید باری تعالیٰ عزاسمہ ہے ، فرمان اللہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا 48؀ۙ ) 5- المآئدہ:48 ) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت و راہ بنا دی ہے ۔ یہاں اس وحی کی تفصیل یوں بیان ہو رہی ہے کہ دین کو قائم رکھو جماعت بندی کے ساتھ اتفاق سے رہو اختلاف اور پھوٹ نہ کرو پھر فرماتا ہے کہ یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گذرتی ہیں ۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے راستے لا کھڑا کرتا ہے اور جو از خود برے راستے کو اختیار کر لیتا ہے اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے جب ان کے پاس حق آ گیا حجت ان پر قائم ہو چکی ۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہوگئے ۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لئے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں ۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا ۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں ، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں ۔