Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَمَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡيًاۢ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ وَ اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡرِثُوا الۡكِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ مُرِيۡبٍ‏ ﴿14﴾
ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی نہ ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی ہے وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔
و ما تفرقوا الا من بعد ما جاءهم العلم بغيا بينهم و لو لا كلمة سبقت من ربك الى اجل مسمى لقضي بينهم و ان الذين اورثوا الكتب من بعدهم لفي شك منه مريب
And they did not become divided until after knowledge had come to them - out of jealous animosity between themselves. And if not for a word that preceded from your Lord [postponing the penalty] until a specified time, it would have been concluded between them. And indeed, those who were granted inheritance of the Scripture after them are, concerning it, in disquieting doubt.
Unn logon ney apnay pass ilm aajaney kay baad hi ikhtilaf kiya ( aur woh bhi ) bahami zidd behas say aur agar aap kay rab ki baat aik waqt-e-muqarrara tak kay liye pehlay hi say qarar paagaee hui na hoti to yaqeenan unn ka faisla ho chuka hota aur jinn logon ko unn kay baad kitab di gaee hai woh bhi uss ki taraf say uljhan walay shak mein paray huye hain.
اور لوگوں نے آپس کی عداوتوں کی وجہ سے ( دین میں ) جو تفرقہ ڈالا ہے وہ اس کے بعد ہی ڈالا ہے جب ان کے پاس یقینی علم آچکا تھا ۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معین مدت تک کے لیے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ ( ٣ ) اور ان لوگوں کے بعد جن کو کتاب کا وارث بنایا گیا ہے وہ اس کے بارے میں ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں خلجان میں ڈال رکھا ہے ۔
اور انہوں نے پھوٹ نہ ڈالی مگر بعد اس کے کہ انہیں علم آچکا تھا ( ف۳۰ ) آپس کے حسد سے ( ف۳۱ ) اور اگر تمہارے رب کی ایک بات گزر نہ چکی ہوتی ( ف۳۲ ) ایک مقرر میعاد تک ( ف۳۳ ) تو کب کا ان میں فیصلہ کردیا ہوتا ( ف۳٤ ) اور بیشک وہ جو ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے ( ف۳۵ ) وہ اس سے ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں ( ف۳٦ )
لوگوں میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا 22 ، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے 23 ۔ اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا 24 ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ 25
اور انہوں نے فرقہ بندی نہیں کی تھی مگر اِس کے بعد جبکہ اُن کے پاس علم آچکا تھا محض آپس کی ضِد ( اور ہٹ دھرمی ) کی وجہ سے ، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے مقررہ مدّت تک ( کی مہلت ) کا فرمان پہلے صادر نہ ہوا ہوتا تو اُن کے درمیان فیصلہ کیا جا چکا ہوتا ، اور بیشک جو لوگ اُن کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے تھے وہ خود اُس کی نسبت فریب دینے والے شک میں ( مبتلا ) ہیں
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :22 یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے ، بلکہ یہ تفرہ ان میں اللہ کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا ۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :23 یعنی اس تفرقہ پردازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا ، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش ، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر ، آپس کی ضدم ضدا ، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش ، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی ۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے ۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے ، ایک کتاب ہوگی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے ، اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہوگا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے ۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے ، اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں ، اور ان کے آگے اور سر بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں ۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے ، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہراہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا ۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی ، یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :24 یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے ، اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے ، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے ، کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :25 مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں ۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے ۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا ۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوئے جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈمڈ کر دیا ۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گئے ۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ میں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی ۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب ، الہٰیات ، فلسفہ ، قانون ، طبعیات ، نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے ۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی ، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی ۔