Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَالَّذِيۡنَ يُحَآجُّوۡنَ فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِيۡبَ لَهٗ حُجَّتُهُمۡ دَاحِضَةٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ‏ ﴿16﴾
اور جو لوگ اللہ تعالٰی کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ ( مخلوق ) انہیں مان چکی ان کی کٹ حجتی اللہ کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے ۔
و الذين يحاجون في الله من بعد ما استجيب له حجتهم داحضة عند ربهم و عليهم غضب و لهم عذاب شديد
And those who argue concerning Allah after He has been responded to - their argument is invalid with their Lord, and upon them is [His] wrath, and for them is a severe punishment.
Aur jo log Allah Taalaa ki baton mein jhagra daltay hain iss kay baad kay ( makhlooq ) ussay maan chuki unn ki cut hujjati Allah kay nazdeek batil hai aur unn per ghazab hai aur unn kay liye sakht azab hai.
اور جو لوگ اللہ کے بارے میں بحثیں نکالتے ہیں جبکہ لوگ اس کی بات مان چکے ہیں ، ان کی بحث ان کے پروردگار کے نزدیک باطل ہے ، اور ان پر ( اللہ کا ) غضب ہے ، اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔
اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ مسلمان اس کی دعوت قبول کرچکے ہیں ( ف٤۵ ) ان کی دلیل محض بےثبات ہے ان کے رب کے پاس اور ان پر غضب ہے ( ف٤٦ ) اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ( ف٤۷ )
اللہ کی دعوت پر لبیک کہے جانے کے بعد جو لوگ ( لبیک کہنے والوں سے ) اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں 31 ، ان کی حجت بازی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے ، اور ان پر اس کا غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔
اور جو لوگ اللہ ( کے دین کے بارے ) میں جھگڑتے ہیں بعد اِس کے کہ اسے قبول کر لیا گیا اُن کی بحث و تکرار اُن کے رب کے نزدیک باطل ہے اور اُن پر ( اللہ کا ) غضب ہے اور اُن کے لئے سخت عذاب ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :31 یہ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف جو مکے میں اس وقت آئے دن پیش آ رہی تھی ۔ جہاں کسی کے متعلق لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ، ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ، مدتوں اس کی جان ضیق میں کیے رکھتے ، نہ گھر میں اسے چین لینے دیا جاتا نہ محلے اور برادری میں ، جہاں بھی وہ جاتا ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی جس کا مدعا یہ ہوتا کہ کسی طرح وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر اسی جاہلیت میں پلٹ آئے جس سے وہ نکلا ہے ۔
منکرین قیامت کے لئے وعیدیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو ایمان داروں سے فضول حجتیں کیا کرتے ہیں ، انہیں راہ ہدایت سے بہکانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دین میں اختلاف پیدا کرتے ہیں ۔ ان کی حجت باطل ہے ان پر رب غضبناک ہے ۔ اور انہیں قیامت کے روز سخت اور ناقابل برداشت مار ماری جائے گی ۔ ان کی طمع پوری ہونی یعنی مسلمانوں میں پھر دوبارہ جاہلیت کی خو بو آنا محال ہے ٹھیک اسی طرح یہود و نصارٰی کا بھی یہ جادو نہیں چلنے دے گا ۔ ناممکن ہے کہ مسلمان ان کے موجودہ دین کو اپنے سچے اچھے اصل اور بےکھرے دین پر ترجیح دیں ۔ اور اس دین کو لیں جس میں جھوٹ ملا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل و انصاف اتارا ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 25۝ۧ ) 57- الحديد:25 ) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا قرآن کے ہمراہ کتاب اور میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں ۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ Ċ۝ۙ ) 55- الرحمن:7 ) یعنی آسمان کو اسی نے اونچا کیا اور ترازؤں کو اسی نے رکھا تا کہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو ۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو مت گھٹاؤ ۔ پھر فرماتا ہے تو نہیں جان سکتا کہ قیامت بالکل قریب ہے اس میں خوف اور لالچ دونوں ہی ہیں اور اس میں دنیا سے بےرغبت کرنا بھی مقصود ہے ۔ پھر فرمایا اس کے منکر تو جلدی مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو قیامت قائم کر دو کیونکہ ان کے نزدیک قیامت ہونا محال ہے ۔ لیکن ان کے برخلاف ایمان دار اس سے کانپ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ روز جزا کا آنا حتمی اور ضروری ہے ۔ یہ اس سے ڈر کر وہ اعمال بجا لا رہے ہیں جو انہیں اس روز کام دیں ایک بالکل صحیح حدیث میں ہے جو تقریبا تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ قیامت کب ہو گی ؟ یہ واقعہ سفر کا ہے وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دور تھے آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ یقینا آنے والی ہے تو بتا کہ تو نے اس کے لئے تیاری کیا کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ نے فرمایا تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تو محبت رکھتا ہے اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا ۔ یہ حدیث یقینا متواتر ہے الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا بلکہ سائل کو اس دن کے لئے تیاری کرنے کو فرمایا پس قیامت کے آنے کے وقت علم کا سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں جو لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس کے منکر ہیں اسے محال جانتے ہیں وہ نرے جاہل ہیں سچی سمجھ صحیح عقل سے دور پڑے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں ۔ تعجب ہے کہ زمین و آسمان کا ابتدائی خالق اللہ کو مانیں اور انسان کو مار ڈالنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے پر اسے قادر نہ جانیں جس نے بغیر کسی نمونے کے اور بغیر کسی جز کے ابتدا ً اسے پیدا کر دیا تو دوبارہ جب کہ اس کے اجزاء بھی کسی نہ کسی صورت میں کچھ نہ کچھ موجود ہیں اسے پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہے بلکہ عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور اب تو اور بھی آسان ہے ۔