Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
ذٰ لِكَ الَّذِىۡ يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‌ؕ قُلْ لَّاۤ اَسۡـَٔـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى‌ؕ وَمَنۡ يَّقۡتَرِفۡ حَسَنَةً نَّزِدۡ لَهٗ فِيۡهَا حُسۡنًا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ شَكُوۡرٌ‏ ﴿23﴾
یہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ تعالٰی اپنے ان بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور ( سنت کے مطابق ) نیک عمل کئے تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی جو شخص کوئی نیکی کرے ہم اس کے لئے اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھا دیں گے بیشک اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا ( اور ) بہت قدردان ہے ۔
ذلك الذي يبشر الله عباده الذين امنوا و عملوا الصلحت قل لا اسلكم عليه اجرا الا المودة في القربى و من يقترف حسنة نزد له فيها حسنا ان الله غفور شكور
It is that of which Allah gives good tidings to His servants who believe and do righteous deeds. Say, [O Muhammad], "I do not ask you for this message any payment [but] only good will through kinship." And whoever commits a good deed - We will increase for him good therein. Indeed, Allah is Forgiving and Appreciative.
Yehi woh hai jiss ki bisharat Allah Taalaa apney bandon ko dey raha hai jo eman laye aur ( sunnat kay mutabiq ) nek aemaal kiyey to keh dijiyey! Kay mein iss per tum say koi badla nahi chahata magar mohabbat rishtaydaari ki jo shaks koi neki keray hum uss kay liye uss ki neki mein aur neki barha den gay be-shak Allah Taalaa boht bakhshney wala ( aur ) boht qadardaan hai.
یہی وہ چیز ہے جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ۔ ( اے پیغمبر ! کافروں سے ) کہہ دو کہ : میں تم سے اس ( تبلیغ ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ، سوائے رشتہ داری کی محبت کے ۔ ( ٥ ) اور جو شخص کوئی بھلائی کرے گا ، ہم اس کی خاطر اس بھلائی میں مزید خوبی کا اضافہ کردیں گے ۔ ( ٦ ) یقین جانو اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا قدردان ہے ۔
یہ ہے وہ جس کی خوشخبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ، تم فرماؤ میں اس ( ف٦۸ ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا ( ف٦۹ ) مگر قرابت کی محبت ( ف۷۰ ) اور جو نیک کام کرے ( ف۷۱ ) ہم اس کے لیے اس میں اور خوبی بڑھائیں ، بیشک اللہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے ،
یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے ۔ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں 40 ، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں 41 ۔ جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے ۔ بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا قدر دان ہے ۔ 42 ۔
یہ وہ ( انعام ) ہے جس کی خوشخبری اللہ ایسے بندوں کو سناتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ، فرما دیجئے: میں اِس ( تبلیغِ رسالت ) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر ( اپنی اور اللہ کی ) قرابت و قربت سے محبت ( چاہتا ہوں ) اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس میں اُخروی ثواب اور بڑھا دیں گے ۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :40 اس کام سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :41 اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر قربٰی کی محبت ضرور چاہتا ہوں ۔ اس لفظ قربٰی کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے ۔ ایک گروہ نے اس کو قرابت ( رشت دری ) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ ( یعنی اہل قریش ) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے ۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تل گئے ہو ۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن جریر ، طبرانی ، بیہقی ، اور ابن سعد و غیرہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد ، عکرمہ ، قتادہ ، سدی ، ابو مالک ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک ، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے ۔ دوسرا گروہ قربٰی کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ ، بس یہی میرا اجر ہے ۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں ابن عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے ۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہ سَبِیْلاً ( الفرقان ۔ 57 ) ۔ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ۔ تیسرا گروہ قربٰی کو اقرب ( رشتہ داروں ) کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو ۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں ۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین ( زین العابدین ) کی طرف منسوب کی گئی ہے ۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی ، اولاد کا کیا سوال ۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے ۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے ۔ دوسرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی ۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے ۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی ۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمیں کے ذمہ ہے ۔ ( یونس 72 ۔ ہود 29 ۔ 51 ۔ الشعراء 109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180 ) ۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے ( آیت 21 ) ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو ( الانعام 90 ۔ یوسف 104 ۔ المؤمنون 72 ۔ الفرقان 57 ۔ سبا 47 ۔ ص 82 ۔ الطور 40 ۔ القلم 46 ) ۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں ۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے ۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو ۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا ۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :42 یعنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس ، نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ ( 1 ) جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں ، اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے ( 2 ) ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ، یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے ۔
رسول اللہ سے قرابت داری کی فضیلت اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کر کے بیان فرما رہا ہے کہ ایمان دار نیک کار بندوں کو اس کی بشارت ہو پھر اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا ۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اگر اپنی برائی سے ہی ٹل جاؤ اور مجھے رب کی رسالت پہنچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو سامنے رکھ کر میری ایذاء رسانی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اس سے مراد قرابت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا تم نے عجلت سے کام لیا سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور کی رشتہ داری تھی تو مطلب یہی کہ تم اس رشتے داری کا لحاظ رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی ، حضرت ابو مالک ، حضرت عبد الرحمن وغیرہ بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو دلیلیں دی ہیں جس ہدایت کا راستہ بتایا ہے اس پر کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم اللہ کو چاہنے لگو اور اس کی اطاعت کی وجہ سے اس سے قرب اور نزدیکی حاصل کر لو حضرت حسن بصری سے بھی یہی تفسیر منقول ہے تو یہ دوسرا قول ہوا پہلا قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رشتے داری کو یاد دلانا دوسرا قول آپ کی یہ طلب کہ لوگ اللہ کی نزدیکی حاصل کرلیں تیسرا قول جو حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے گزرا کہ تم میری قرابت کے ساتھ احسان اور نیکی کرو ۔ ابو الدیلم کا بیان ہے کہ جب حضرت علی بن حسین کو قید کر کے لایا گیا اور دمشق کے بالا خانے میں رکھا گیا تو ایک شامی نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کرایا اور تمہارا ناس کرا دیا اور فتنہ کی ترقی کو روک دیا یہ سن کر آپ نے فرمایا کیا تو نے قرآن بھی پڑھا ہے اس نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا اس میں ( حم ) والی سورتیں بھی پڑھی ہیں ؟ اس نے کہا واہ سارا قرآن پڑھ لیا اور ( حم ) والی سورتیں نہیں پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا پھر کیا ان میں اس آیت کی تلاوت تو نے نہیں کی ؟ آیت ( قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ 23؀ ) 42- الشورى:23 ) یعنی میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر محبت قرابت کی ۔ اس نے کہا پھر کیا تم وہ ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! حضرت عمرو بن شعیب سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا مراد قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ انصار نے اپنی خدمات اسلام گنوائیں گویا فخر کے طور پر ۔ اس پر ابن عباس یا حضرت عباس نے فرمایا ہم تم سے افضل ہیں جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ ان کی مجلس میں آئے اور فرمایا انصاریو کیا تم ذلت کی حالت میں نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے عزت بخشی ! انہوں نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ۔ فرمایا کیا تم گمراہ نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے ہدایت کی ؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک آپ نے سچ فرمایا پھر آپ نے فرمایا اب تم مجھے کیوں نہیں کہتے ؟ انہوں نے کہا کیا کہیں ؟ فرمایا کیوں نہیں کہتے ؟ کہ کیا تیری قوم نے تجھے نکال نہیں دیا تھا ؟ اس وقت ہم نے تجھے پناہ دی کیا انہوں نے تجھے جھٹلایا نہ تھا ؟ اس وقت ہم نے تیری تصدیق کی ؟ کیا انہوں نے تجھے پست کرنا نہیں چاہا تھا اس وقت ہم نے تیری مدد کی ؟ اس طرح کی آپ نے اور بھی بہت سی باتیں کیں یہاں تک کہ انصار اپنے گھٹنوں پر جھک پڑے اور انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اولاد اور جو کچھ ہمارے پاس ہے سب اللہ کا اور سب اس کے رسول کے لئے ہے ۔ پھر یہ آیت ( قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۭ وَمَنْ يَّــقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ 23؀ ) 42- الشورى:23 ) نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں بھی اسی کے قریب ضعیف سند سے مروی ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ یہ واقعہ حنین کی غنیمت کی تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور اس میں آیت کے اترنے کا ذکر بھی نہیں اور اس آیت کو مدینے میں نازل شدہ ماننے میں بھی قدرے تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے پھر جو واقعہ حدیث میں مذکور ہے اس واقعہ میں اور اس آیت میں کچھ ایسی زیادہ ظاہر مناسبت بھی نہیں ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت رکھنے کا ہمیں حکم باری ہوا ہے آپ نے فرمایا حضرت فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم ۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا راوی مبہم ہے جو معروف نہیں پھر اس کا استاد ایک شیعہ ہے جو بالکل ثقاہت سے گرا ہوا ہے اس کا نام حسین اشغر ہے اس جیسی حدیث بھلا اس کی روایت سے کیسے مان لی جائے گی ؟ پھر مدینے میں آیت نازل ہونا ہی مستعد ہے حق یہ ہے کہ آیت مکی ہے اور مکہ شریف میں حضرت فاطمہ کا عقد ہی نہ ہوا تھا اولاد کیسی ؟ آپ کا عقد تو صرف حضرت علی کے ساتھ جنگ بدر کے بعد سنہ ٢ھ میں ہوا ۔ پس صحیح تفسیر اس کی وہی ہے جو حبر المہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے کی ہے جو بحوالہ بخاری پہلے گذر چکی ہم اہل بیت کے ساتھ خیرخواہی کرنے کے منکر نہیں ہے ہم مانتے ہیں کہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور ان کا اکرام و احترام ضروری چیز ہے روئے زمین پر ان سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں ۔ بالخصوص ان میں سے وہ جو متبع سنت نبی ہوں جیسے کہ اسلاف کی روش تھی یعنی حضرت عباس اور آل عباس کی اور حضرت علی اور آل علی کی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عزت اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض پر میرے پاس نہ آئیں مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباد بن عبدالملک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ قریشی جب آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ لیکن ہم سے اس ہنسی خوشی کے ساتھ نہیں ملتے ۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لئے اور اس کے رسول کی وجہ سے تم سے محبت نہ رکھے اور روایت میں ہے کہ حضرت عباس نے کہا قریشی باتیں کرتے ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں اسے سن کر مارے غصے کے آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمایا واللہ کسی مسلمان کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہو گا جب تک کہ وہ تم سے اللہ کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ رکھے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا لوگو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں رکھو ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت علی سے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے سلوک سے بھی پیارا ہے حضرت عمر فاروق نے حضرت عباس سے فرمایا واللہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے بھی زیادہ اچھا لگا اس لئے کہ تمہارا اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا ۔ پس اسلام کے ان دو چمکتے ستاروں کا مسلمانوں کے ان دونوں سیدوں کا جو معاملہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقربا پیغمبر کے ساتھ تھا وہی عزت و محبت کا معاملہ مسلمانوں کو آپ کے اہل بیت اور قرابت داروں سے رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام دنیا سے افضل یہی دونوں بزرگ خلیفہ رسول تھے پس مسلمانوں کو ان کی پیروی کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور کنبے قبیلے کے ساتھ جس عقیدت سے پیش آنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں خلیفہ سے اہل بیت سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ سے خوش ہو جائے اور سب کو اپنی رضا مندی میں لے لے آمین ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ یزید بن حیان اور حصین بن میسرہ اور عمر بن مسلم حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے حضرت حصین نے کہا اے حضرت آپ کو تو بڑی بڑی خیر و برکت مل گئی آپ نے اللہ کے نبی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں آپ کے ساتھ جہاد کیے آپ کے ساتھ نمازیں پڑھیں حق تو یہ ہے کہ بڑی بڑی فضیلتیں آپ نے سمیٹ لیں اچھا اب کوئی حدیث ہمیں بھی بتائیے ۔ اس پر حضرت زید نے فرمایا میرے بھتیجے سنو میری عمر اب بڑی ہو گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو عرصہ گذر چکا بعض چیزیں ذہن میں محفوظ نہیں رہیں اب تو یہی رکھو کہ جو از خود سنا دوں اسے مان لیا کرو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو کہ تکلف سے بیان کرنا پڑے پھر آپ نے فرمایا کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہ کے پاس جسے خم کہا جاتا تھا کھڑے ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا اللہ کی حمد وثنا کی وعظ و پند کیا پھر فرمایا لوگو میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی ابھی میرے پاس قاصد اللہ پہنچ جائے اور میں اس کی مان لوں سنو میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو کتاب اللہ جس میں نور و ہدایت ہے تم اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو پس اس کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تاکید کی پھر فرمایا اے میرے اہل بیت میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں یہ سن کر حصین نے حضرت زید سے پوچھا اے زید آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ؟ فرمایا بیشک آپ کی بیویاں وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ فرمایا ہاں ! ترمذی شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط تھامے رہے تو بہکو گے نہیں ایک دوسری سے زیادہ عظمت والی ہے کتاب اللہ جو اللہ کی طرف سے ایک لٹکائی ہوئی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آئی ہے اور دوسری چیز میری عترت میرے اہل بیت ہے اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں ۔ پس دیکھ لو کہ میرے بعد کس طرح ان میں میری جانشینی کرتے ہو؟ امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور صرف ترمذی میں ہے یہ روایت ہے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے ترمذی میں ہے کہ عرفے والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جسے قصوا کہا جاتا تھا خطبہ دیا جس میں فرمایا لوگو میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ۔ ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مدنظر رکھ کر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میری اہل بیت سے محبت رکھو یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حسن غریب ہے اس مضمون کی اور احادیث ہم نے آیت ( اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33؀ۚ ) 33- الأحزاب:33 ) کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد اللہ ۔ ایک ضعیف حدیث مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ابو ذر نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا تھامے ہوئے فرمایا لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں جو نہیں پہچانتے وہ اب پہچان کرلیں کہ میرا نام ابو ذر ہے سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال مثل نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہے اس میں جو چلا گیا اس نے نجات پالی اور جو اس میں داخل نہ ہوا ہلاک ہوا پھر فرماتا ہے جو نیک عمل کرے ہم اس کا ثواب اور بڑھا دیتے ہیں جیسے ایک اور آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہو تو اور بڑھا دیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے بعض سلف کا قول ہے کہ نیکی کا ثواب اس کے بعد نیکی ہے اور برائی کا بدلہ اس کے بعد برائی ہے پھر فرمان ہوا کہ اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکیوں کی قدر دانی کرنے والا ہے انہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے پھر فرماتا ہے کہ یہ جاہل کفار جو کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو نے گھڑ لیا ہے اور اللہ کے نام لگا دیا ہے ایسا نہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور تجھے کچھ بھی یاد نہ رہتا جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ ) 69- الحاقة:44 ) اگر یہ رسول ہمارے ذمے کچھ باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ان کے دل کی رگ کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی انہیں اس سزا سے نہ بچا سکتا ۔ یعنی یہ اگر ہمارے کلام میں کچھ بھی زیادتی کرتے تو ایسا انتقام لیتے کہ دنیا کی کوئی ہستی اسے نہ بچا سکتی اس کے بعد کا جملہ آیت ( ویمح اللہ ) الخ ، ( یختم ) پر معطوف نہیں بلکہ یہ مبتدا ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ۔ آیت ( یختم ) پر عطف نہیں جو مجزوم ہو ۔ واؤ کا کتابت میں نہ آنا یہ صرف امام کے رسم خط کی موافقت کی وجہ سے ہے جیسے آیت ( سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ 18؀ۙ ) 96- العلق:18 ) میں واؤ لکھنے میں نہیں آئی ۔ اور آیت ( وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11؀ ) 17- الإسراء:11 ) میں واؤ نہیں لکھی گئی ہاں اس کے بعد کے جملے آیت ( اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ Ċ۝ۙ ) 8- الانفال:7 ) کا عطف آیت ( وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 24؀ ) 42- الشورى:24 ) ، پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ حق کو واضح اور مبین کر دیتا ہے اپنے کلمات سے یعنی دلائل بیان فرما کر حجت پیش کر کے وہ خوب دانا بینا ہے دلوں کے راز سینوں کے بھید اس پر کھلے ہوئے ہیں ۔