Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
فَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ۚ وَمَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَۚ‏ ﴿36﴾
تو تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ زندگانی دنیا کا کچھ یونہی سا اسباب ہے اور اللہ کے پاس جو ہے وہ اس سے بدرجہ بہتر اور پائیدار ہے ، وہ ان کے لئے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔
فما اوتيتم من شيء فمتاع الحيوة الدنيا و ما عند الله خير و ابقى للذين امنوا و على ربهم يتوكلون
So whatever thing you have been given - it is but [for] enjoyment of the worldly life. But what is with Allah is better and more lasting for those who have believed and upon their Lord rely
To tumhen jo kuch diya gaya hai woh zindaganiy-e-duniya ka kuch yun hi sa asbab hai aur Allah kay pass jo hai woh iss say ba-darja behtar aur payedaar hai woh unn kay liye hai jo eman laye aur sirf apnay rab hi per bharosa rakhtay hain.
غرض تمہیں جو کوئی چیز دی گئی ہے وہ دنیوی زندگی کی پونجی ہے ، او جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر اور پائیدار ہے جو ایمان لائے ہیں ، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
تمہیں جو کچھ ملا ہے ( ف۹۵ ) وہ جیتی دنیا میں برتنے کا ہے اور وہ جو اللہ کے پاس ہے ( ف۹۷ ) بہتر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ان کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ( ف۹۸ )
جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے ، 55 اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائدار بھی56 ۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں
سو تمہیں جو کچھ بھی ( مال و متاع ) دیا گیا ہے وہ دنیوی زندگی کا ( چند روزہ ) فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے ، ( یہ ) اُن لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر توکّل کرتے ہیں
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :55 یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے ۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے ، ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے ۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو ، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے ۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی ، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :56 یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے ، اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے ۔
درگذر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بےقدری اور اسکی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ فانی چیز ہے ۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیے جو سرمدی اور باقی چیز ہے ۔ پس فانی کو باقی پر کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تا کہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تا کہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہو جائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیے ۔ اس جملہ کی تفسیر سورہ اعراف میں گذر چکی ہے ۔ غصے پر قابو چاہیے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بےتوقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہو گیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آکر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے ۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے ۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اللہ ہوتا ہے آیت ( وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْر ١٥٩؁ ) 3-آل عمران:159 ) یعنی ان سے مشورہ کر لیا کرو اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں ۔ اور اسی بنا پر امیر المومنین حضرت عمر نے جب کہ آپ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت آگیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں ۔ عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ پس سب نے باتفاق رائے حضرت عثمان کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لئے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بےزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کر سکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آکر پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے ۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لئے گئے اور گرفتار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا ۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے اس نے آپ کی تلوار پر قبضہ کر لیا جب آپ جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا آپ نے صحابہ کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا ۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ نے اس سے درگذر فرما لے اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ کو زہر دیا تھا آپ نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہو جانے کے باوجود بھی آپ نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کر دیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی ۔ جو جنگ خیبر میں حضرت محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت حاصل ہو جائے گی یہ معلوم ہو جانے پر اور اس کے اقبال کر لینے پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا ۔ معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کر دی گئی اس لئے اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے حضرت بشر بن برا فوت ہوگئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی اور بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔