Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَالَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوا لِرَبِّهِمۡ وَاَقَامُوۡا الصَّلٰوةَ وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿38﴾
اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا ( ہر ) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے ( ہمارے نام پر ) دیتے ہیں ۔
و الذين استجابوا لربهم و اقاموا الصلوة و امرهم شورى بينهم و مما رزقنهم ينفقون
And those who have responded to their lord and established prayer and whose affair is [determined by] consultation among themselves, and from what We have provided them, they spend.
Aur apnay rab kay farman ko qabool kertay hain aur unn ka ( her ) kaam aapas kay mashwaray say hota hai aur jo hum ney unhen dey rakha hai uss mein say ( humaray naam per ) detay hain.
اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی بات مانی ہے اور نماز قائم کی ہے اور ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں ، اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے ، ۔ اس میں سے وہ ( نیکی کے کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا ( ف۹۹ ) اور نماز قائم رکھی ( ف۱۰۰ ) اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے ( ف۱۰۱ ) اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ،
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں 60 ، نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں 61 ، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں 62 ،
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :60 لفظی ترجمہ ہو گا اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :61 اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے ، اور سورہ آل عمران ( آیت 159 ) میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے ، اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو ، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے ۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے ، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے ، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں ، اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا ۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے ، اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی کو عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے ۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی ، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں ۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو ، یا ان کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے ، اور اگر نادانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے ۔ یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا ۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے ۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے ۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے ۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو ، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں ۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے ، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو ، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے ۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا ، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے ، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں ۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو ، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو ، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے ، اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے ۔ اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے : اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو ، اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ انکے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ئے جا رہے ہیں ، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں ، اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں ۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرُھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا ۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے ، اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو ۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی ، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی ، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے ۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں ۔ سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو ، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دباؤ ڈال کر ، یا مال سے خرید کر ، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر ، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں ۔ چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں ، اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ بات جہاں نہ ہو ، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر ، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں ، وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کی پیروی ۔ پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع ( اتفاق رائے ) سے دیا جائے ، یا جسے ان کے جمہور ( اکثریت ) کی تائید حاصل ہو ، اسے تسلیم کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں ۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں ۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے ، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ، اور تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو ۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے ، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو ، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :62 اس کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ نہیں مارتے ۔ دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوئے رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں ، سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے ۔ پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر فرماتا ہے ۔ ناپاک اور حرام طریقوں سے کمائے ہوئے رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا ۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے ، سینت سَینت کر رکھنے اور اس پر مارزر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا ۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذات پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے ۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں ۔