Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثۡلُهَا‌ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿40﴾
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ، ( فی الواقع ) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ۔
و جزؤا سية سية مثلها فمن عفا و اصلح فاجره على الله انه لا يحب الظلمين
And the retribution for an evil act is an evil one like it, but whoever pardons and makes reconciliation - his reward is [due] from Allah . Indeed, He does not like wrongdoers.
Aur baraee ka badla ussi jaisi buraee hai aur jo maaf ker dayaur islah kerley uss ka ajar Allah kay zimay hai ( fil-waqey ) Allah Taalaa zalimon say mohabbat nahi kerta.
اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے ۔ ( ٨ ) پھر بھی جو کوئی معاف کردے ، اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے ذمے لیا ہے ۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔
اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے ( ف۱۰۳ ) تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے ، بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو ( ف۱۰٤ )
برائی 64 کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے 65 ، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے 66 ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا 67 ۔
اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے ، پھر جِس نے معاف کر دیا اور ( معافی کے ذریعہ ) اصلاح کی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے ۔ بیشک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :64 یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :65 یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو ، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے ، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :66 یہ دوسرا قاعدہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگرچہ جائز ہے ، لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے ۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کر کے دیتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :67 اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے ۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے ۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے ۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے ۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٩٤؁ ) 2- البقرة:194 ) اور آیت میں ہے ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁ ) 16- النحل:126 ) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا ۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے ۔ پھر برائی کی ابتدا اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ ابن عون فرماتے ہیں ، میں اس لفظ ( انتصر ) کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو حضرت عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ حضرت عائشہ کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس وقت حضرت زینب وہاں موجود تھیں آپ کو معلوم نہ تھا صدیقہ کی طرف جب آپ نے ہاتھ بڑھایا تو صدیقہ نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ حضرت زینب نے صدیقہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ نے حضرت عائشہ کو اجازت دی کہ جواب دیں ۔ اب جو جواب ہوا تو حضرت زینب عاجز آگئیں اور سیدھی حضرت علی کے پاس گئیں اور کہا عائشہ تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں یہ سن کر حضرت فاطمہ حاضر حضور ہوئیں آپ نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی !عائشہ سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں ۔ اور حضرت علی سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر حضرت علی آئے اور آپ سے باتیں کیں ۔ یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموما منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ حضرت زینب غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع حضرت عائشہ کے گھر چلی آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صدیقہ کی نسبت کچھ کہا پھر حضرت عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے عائشہ سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ نے جواب دینے شروع کئے تو حضرت زینب کا تھوک خشک ہو گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ صدمہ ہٹ گیا ۔ حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ بزار میں ہے ظالم کے لئے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا ۔ یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ایسے فسادی قیامت کے دن دردناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کر لیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابو عبداللہ تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون ومال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بےوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں ۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی ۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا ۔ ( ابن ابی حاتم ) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضلیت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کر لے اور برائی سے درگذر کر لے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض کا فرمان ہے کہ جب تم سے آکر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کر دو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیز گاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہدو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کر دو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کر دینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے ۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق کو برا بھلا کہنا شروع کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے حضرت صدیق خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ نے بھی بعض کا جواب دیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے ۔ حضرت ابو بکر سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کے چلے ؟ آپ نے فرمایا سنو جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آگیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابو بکر تین چیزیں بالکل حق ہیں ( ١ ) جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کر لے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا ( ٢ ) جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا ( ٣ ) اور جو شخص مال بڑھانے کے لئے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بےبرکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابو داؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے ۔