Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا‌ؕ اِنۡ عَلَيۡكَ اِلَّا الۡبَلٰغُ‌ ؕ وَاِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَةً فَرِحَ بِهَا‌ۚ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ سَيِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ كَفُوۡرٌ‏ ﴿48﴾
اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ، آپ کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے ہم جب کبھی انسان کو اپنی مہربانی کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے اور اگر انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو بیشک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
فان اعرضوا فما ارسلنك عليهم حفيظا ان عليك الا البلغ و انا اذا اذقنا الانسان منا رحمة فرح بها و ان تصبهم سية بما قدمت ايديهم فان الانسان كفور
But if they turn away - then We have not sent you, [O Muhammad], over them as a guardian; upon you is only [the duty of] notification. And indeed, when We let man taste mercy from us, he rejoices in it; but if evil afflicts him for what his hands have put forth, then indeed, man is ungrateful.
Agar yeh mun pher len to hum ney aap ko inn per nigheybaan bana ker nahi bheja aap kay zimay to sirf paygham phoncha dena hai hum jab kabhi insan ko apni meharbani ka maza chakhatay hain to woh iss per itra jata hai aur agar unhen unn kay aemaal ki waja say koi museebat phonchti hai to be-shak insan bara hi na shukra hai.
۔ ( اے پیغمبر ) یہ لوگ اگر پھر بھی منہ موڑیں تو ہم نے تمہیں ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجا ہے ، تم پر بات پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، اور ( انسان کا حال یہ ہے کہ ) جب ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے ، اور اگر خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ایسے لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے تو وہی انسان پکا ناشکرا بن جاتا ہے ۔
تو اگر وہ منہ پھیریں ( ف۱۱۹ ) تو ہم نے تمہیں ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا ( ف۱۲۰ ) تم پر تو نہیں مگر پہنچا دینا ( ف۱۲۱ ) اور جب ہم آدمی کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ دیتے ہیں ( ف۱۲۲ ) اور اس پر خوش ہوجاتا ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے ( ف۱۲۳ ) بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ( ف۱۲٤ ) تو انسان بڑا ناشکرا ہے ( ف۱۲۵ )
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے 74 ۔ تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے 75 ۔
پھر ( بھی ) اگر وہ رُوگردانی کریں تو ہم نے آپ کو اُن پر ( تباہی سے بچانے کا ) ذمّہ دار بنا کر نہیں بھیجا ۔ آپ پر تو صرف ( پیغامِ حق ) پہنچا دینے کی ذمّہ داری ہے ، اور بیشک جب ہم انسان کو اپنی بارگاہ سے رحمت ( کا ذائقہ ) چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے اُن کے اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجے ہوئے اعمالِ ( بد ) کے باعث ، تو بیشک انسان بڑا ناشکر گزار ( ثابت ہوتا ) ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :74 یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لاکے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آئے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :75 انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے ۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں ، اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے ۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مددگار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے ۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے ۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے ، بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے ۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے ، تاکہ وہ چڑ نہ جائے ، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔