ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالٰی کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے ، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے ۔
And it is not for any human being that Allah should speak to him except by revelation or from behind a partition or that He sends a messenger to reveal, by His permission, what He wills. Indeed, He is Most High and Wise.
Na-mumkin hai kay kissi banday say Allah Taalaa kalam keray magar wahee kay zariyey ya parday kay peechay say ya kissi farishtay ko bhejay aur woh Allah ka hukum say jo woh chahaye wahee keray be-shak woh bartar hai hikmat wala hai.
اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے ( روبرو ) بات کرے ۔ ( ١٠ ) سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو ، یا کسی پردے کے پیچھے سے ، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا ، بڑی حکمت کا مالک ہے ۔
اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر ( ف۱۳۰ ) یا یوں کہ وہ بشر پر وہ عظمت کے ادھر ہو ( ف۱۳۱ ) یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے ( ف۱۳۲ ) بیشک وہ بلندی و حکمت والا ہے ،
( ۲
کسی 78 بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے ۔ اس کی بات یا تو وحی ( اشارے ) کے طور پر ہوتی ہے 79 ، یا پردے کے پیچھے سے 80 ، یا پھر وہ کوئی پیغامبر ( فرشتہ ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے 81 ، وہ برتر اور حکیم ہے 82 ۔
اور ہر بشر کی ( یہ ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے ( براہِ راست ) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے ( کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے ) یا پردے کے پیچھے سے ( بات کرے جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی ) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے ( الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا ) ، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :78
تقریر ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا ۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :79
یہاں وحی سے مراد ہے القاء ، الہام ، دل میں کوئی بات ڈال دینا ، یا خواب میں کچھ دکھا دینا ، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف علیہم السلام کو دکھایا گیا ( یوسف ، آیات 4 ۔ 100 ۔ الصافات 102 ) ۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :80
مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے ، مگر بولنے والا اسے نظر نہ آئے ، جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا ( طٰہٰ ، آیات 11 تا 48 ۔ النمل ، آیات 8 تا 12 ۔ القصص ، آیات 30 تا 35 )
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :81
یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ۔ لیکن قرآن کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہ مَا یَشَآءُ ( پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں ۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو وحی کرنے سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو وحی کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے ۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں ۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نابلد ہو ۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :82
یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے ، اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے ۔
قرآن حکیم شفا ہے
مقامات و مراتب و کیفیات وحی کا بیان ہو رہا ہے کہ کبھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وحی ڈال دی جاتی ہے جس کے وحی اللہ ہونے میں آپکو کوئی شک نہیں رہتا جیسے صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی ہے کہ کوئی شخص بھی جب تک اپنی روزی اور اپنا وقت پورا نہ کر لے ہرگز نہیں مرتا پس اللہ سے ڈرو اور روزی کی طلب میں اچھائی اختیار کرو ۔ یا پردے کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ سے کلام ہوا ۔ کیونکہ انہوں نے کلام سن کر جمال دیکھنا چاہا لیکن وہ پردے میں تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے لیکن تیرے باپ سے اپنے سامنے کلام کیا یہ جنت احد میں کفار کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ کلام عالم برزخ کا ہے اور آیت میں جس کلام کا ذکر ہے اس سے مراد دنیا کا کلام ہے یا اپنے قاصد کو بھیج کر اپنی بات اس تک پہنچائے جیسے حضرت جبرائیل وغیرہ فرشتے انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے رہے وہ علو اور بلندی اور بزرگی والا ہے ساتھ ہی حکیم اور حکمت والا ہے روح سے مراد قرآن ہے فرماتا ہے اس قرآن کو بذریعہ وحی کے ہم نے تیری طرف اتارا ہے کتاب اور ایمان کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہم نے اپنی کتاب میں ہے تو اس سے پہلے جانتا بھی نہ تھا لیکن ہم نے اس قرآن کو نور بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایمان دار بندوں کو راہ راست دکھلائیں جیسے آیت میں ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ 44ۧ ) 41- فصلت:44 ) کہدے کہ یہ ایمان والوں کے واسطے ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں پھر فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم صریح اور مضبوط حق کی رہنمائی کر رہے ہو پھر صراط مستقیم کی تشریح کی اور فرمایا اسے شرع مقرر کرنے والا خود اللہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ آسمانوں زمینوں کا مالک اور رب وہی ہے ان میں تصرف کرنے والا اور حکم چلانے والا بھی وہی ہے کوئی اس کے کسی حکم کو ٹال نہیں سکتا تمام امور اس کی طرف پھیرے جاتے ہیں وہی سب کاموں کے فیصلے کرتا ہے اور حکم کرتا ہے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جو اس کی نسبت ظالم اور منکرین کہتے ہیں وہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔