Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَكَذٰلِكَ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا‌ ؕ مَا كُنۡتَ تَدۡرِىۡ مَا الۡكِتٰبُ وَلَا الۡاِيۡمَانُ وَلٰـكِنۡ جَعَلۡنٰهُ نُوۡرًا نَّهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا‌ ؕ وَاِنَّكَ لَتَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۙ‏ ﴿52﴾
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے ، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا ، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں جسے چاہتے ہیں ، ہدایت دیتے ہیں ، بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
و كذلك اوحينا اليك روحا من امرنا ما كنت تدري ما الكتب و لا الايمان و لكن جعلنه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا و انك لتهدي الى صراط مستقيم
And thus We have revealed to you an inspiration of Our command. You did not know what is the Book or [what is] faith, but We have made it a light by which We guide whom We will of Our servants. And indeed, [O Muhammad], you guide to a straight path -
Aur iss tarah hum ney aap ki taraf apnay hukum say rooh ko utara hai aap iss say pehlay yeh bhi nahi jantay thay kay kitab aur eman kiya cheez hai? Lekin hum nay issay noor banaya iss kay zariyey say apnay bandon mein say jissay chahatay hain hidayat detay hain be-shak aap raah-e-raast ki rehnumaee ker rahey hain.
اور اسی طرح ہم نے تمہارے پاس اپنے حکم سے ایک روح بطور وحی نازل کی ہے ۔ ( ١١ ) تمہیں اس سے پہلے نہ یہ معلوم تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے ، لیکن ہم نے اس ( قرآن ) کو ایک نور بنایا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ، ہدایت دیتے ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تم لوگوں کو وہ سیدھا راستہ دکھا رہے ہو ۔
اور یونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ( ف۱۳۳ ) ایک جان فزا چیز ( ف۱۳٤ ) اپنے حکم سے ، اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل ہاں ہم نے اسے ( ف۱۳۵ ) نور کیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں ، اور بیشک تم ضرور سیدھی راہ بتاتے ہو ( ف۱۳٦ )
اور اسی طرح ( اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے 83 ۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، 84 مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ۔ یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ،
سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ ( قلوب و ارواح ) کی وحی فرمائی ( جو قرآن ہے ) ، اور آپ ( وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے ) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان ( کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں ) ( ) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا ۔ ہم اِس ( نور ) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں ، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں ( )
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :83 اسی طرح سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئے ہیں ۔ اور روح سے مراد وحی ، یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں : 1 ) ۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی ( بخاری و مسلم ) ۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے ، چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے ، اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے ( الفتح ، آیت 27 ) ۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے ، یا مجھے یہ بتایا گیا ہے ، یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے ۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ، اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں ۔ 2 ) ۔ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا ۔ متعدد صحیح احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پنج وقتہ نماز کا حکم دیے جانے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ اور اس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہوا تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا ۔ 3 ) ۔ رہی تیسری قسم ، تو اس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا گیا ہے ( البقرہ ، 97 ۔ الشعراء ، 192 تا 195 ) ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :84 یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے ، یا ملنی چاہیے ، بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے ۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا ۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں ، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سی باتوں کا ماننا ضروری ہے ۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو ، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اسکی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں ، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے ۔