Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
لِتَسۡتَوٗا عَلٰى ظُهُوۡرِهٖ ثُمَّ تَذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ رَبِّكُمۡ اِذَا اسۡتَوَيۡتُمۡ عَلَيۡهِ وَتَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقۡرِنِيۡنَۙ‏ ﴿13﴾
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر جم کر سوار ہوا کرو پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے اسےہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی ۔
لتستوا على ظهوره ثم تذكروا نعمة ربكم اذا استويتم عليه و تقولوا سبحن الذي سخر لنا هذا و ما كنا له مقرنين
That you may settle yourselves upon their backs and then remember the favor of your Lord when you have settled upon them and say. "Exalted is He who has subjected this to us, and we could not have [otherwise] subdued it.
Takay tum inn ki peeth per jamm ker sawar hua kero phir apnay rab ki nemat ko yaad kero jab iss per theek thaak beth jaoaur kaho pak zaat hai uss ki jiss ney issay humaray bus mein ker diya halankay humen issay qaboo kerney ki taqat na thi.
تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو ، پھر جب ان پر چڑھ کر بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی نعمت کو یاد کرو ، اور یہ کہو کہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں دے دیا ، ورنہ ہم میں سے یہ طاقت نہیں تھی کہ اس کو قابو میں لاسکتے ۔
کہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک بیٹھو ( ف۱٤ ) پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو جب اس پر ٹھیک بیٹھ لو اور یوں کہو پاکی ہے اسے جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بوتے ( قابو ) کی نہ تھی ،
تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے 13 ،
تاکہ تم ان کی پشتوں ( یا نشستوں ) پر درست ہو کر بیٹھ سکو ، پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو ، جب تم سکون سے اس ( سواری کی نشست ) پر بیٹھ جاؤ تو کہو: پاک ہے وہ ذات جس نے اِس کو ہمارے تابع کر دیا حالانکہ ہم اِسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :13 یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے ، اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا ، دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے ۔ ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا دل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جائے گا ۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا ۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو ۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مددگار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے ۔ پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کروں ۔ اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، پھر یہ آیت پڑھتے ، اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ : اللھم انی اسألُکَ فی سفری ھٰذا البرَّ و التقویٰ ، ومن العمل ماترضیٰ ، اللھم ھون لنا السفر ، واطْولَنا البعید ، اللھم انت الصاحب فی السفر ، والخلیفۃُ فی الاھل ، اللھم اَصْحِبْنا فی سفرنا واخْلُفْنَا فی اھلنا ( مسند احمد ، مسلم ، ابوداؤد نسائی ، دارمی ، ترمذی ) ۔ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو ۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے ، خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے ، خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا ، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ ، سبحان الذی سخر لنا ھٰذا .......... ، پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا ، پھر فرمایا سبحانک ، لا اِلٰہ الا انت ، قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی ۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا ، بندہ جب ربِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ( احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ۔ ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا پڑھی ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی ، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ، شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے ، اس کے بعد یہ آیت پڑھو ( ابن جریر ۔ احکام القرآن للجصّاص ) ۔