Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖۤ اِنَّنِىۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ﴿26﴾
اور جبکہ ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو ۔
و اذ قال ابرهيم لابيه و قومه انني براء مما تعبدون
And [mention, O Muhammad], when Abraham said to his father and his people, "Indeed, I am disassociated from that which you worship
Aur jabkay ibrahim ( alh-e-salam ) ney apnay walid say aur apni qom say farmaya kay mein inn cheezon say beyzaar hun jinn ki tum ibadat kertay ho.
اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ : میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو ۔
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا میں بیزار ہوں تمہارے معبودوں سے ،
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ 24 تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔
اور جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اپنے ( حقیقی چچا مگر پرورش کی نسبت سے ) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: بیشک میں اُن سب چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم پوجتے ہو
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :24 تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۱۲٤ تا ۱۳۳ ، الانعام ، ھواشی ۵۰ تا ۵۵ ، جلد دوم ، ابراہیم ، حواشی ٤٦ تا ۵۳ ، جلد سوم ، مریم ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ، الانبیاء ، حواشی ۵٤تا ٦٦ ، الشعراء ، حواشی ، ۵۰ تا ٦۲ ، العنکبوت ، حواشی ۲٦تا ٤٦ ، جلد چہارم ، الصافات ، آیات ۸۳ تا ۱۰۰ ، حواشی ٤٤تا ۵۵ ۔
امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت قریشی کفار نیکی اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہدیا کہ مجھ میں تم کوئی تعلق نہیں ۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بےتعلق ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرات حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ لیا ناممکن ہے کہ آپ کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے ۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا ۔ پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جلانا شروع کر دیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں ۔ سرکشی اور ضد میں آکر کفر کر بیٹھے عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکے اور طائف کے کسی رئیس پر کسی بڑے آدمی پر کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا ؟ اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ ، عروہ بن مسعود ، عمیر بن عمرو ، عتبہ بن ربیعہ ، حبیب بن عمرو مابن عبطدیالیل ، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی ۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیے تھا اس اعتراض کے جواب میں فرمان باری سرزد ہوتا ہے کہ کیا رحمت الہٰی کے یہ مالک ہے جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں ؟ اللہ کی چیز اللہ کی ملکیت وہ جسے چاہے دے پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہاراعلم ؟ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حقدار صحیح معنی میں کون ہے ؟ یہ نعمت اسی کو دی جاتی ہے جو تمام مخلوق سے زیادہ پاک دل ہو ۔ سب سے زیادہ پاک نفس ہو سب سے بڑھ کر اشرف گھر کا ہو اور سب سے زیادہ پاک اصل کا ہو پھر فرماتا ہے کہ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہوگئے؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق وتفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں ۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے ایک ایک کے ماتحت رہے پھر ارشاد ہوا کہ تم جو کچھ دنیا جمع کر رہے ہو اس کے مقابلہ میں رب کی رحمت بہت ہی بہتر اور افضل ہے زاں بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ مال کو میرا فضل اور میری رضامندی کی دلیل جان کر مالداروں کے مثل بن جائیں تو میں تو کفار کو یہ دنیائے دوں اتنی دیتا کہ ان کے گھر کی چھتیں بلکہ ان کے کوٹھوں کی سیڑھیاں بھی چاندی کی ہوتیں جن کے ذریعے یہ اپنے بالا خانوں پر پہنچتے ۔ اور ان کے گھروں کے دروازے ان کے بیٹھنے کے تخت بھی چاندی کے ہوتے اور سونے کے بھی میرے نزدیک دنیا کوئی قدر کی چیز نہیں یہ فانی ہے زائل ہونے والی ہے اور ساری مل بھی جائے جب بھی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ان لوگوں کی اچھائیوں کے بدلے انہیں یہیں مل جاتے ہیں ۔ کھانے پینے رہنے سہنے برتنے برتانے میں کچھ سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں ۔ آخرت میں تو محض خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی باقی نہ ہو گی جو اللہ سے کچھ حاصل کر سکیں جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں صرف ان کے لئے نہیں جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہو گا ۔ چنانچہ جب حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے بالا خانہ میں گئے اور آپ نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصرو کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر کس حال میں ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سونے چاندی کے برتنوں میں نہیں کھاؤ پیو یہ دنیا میں ان کے لئے ہیں اور آخرت میں ہمارے لئے ہیں اور دنیا میں یہ ان کے لئے یوں ہیں کی رب کی نظروں میں دنیا ذلیل و خوار ہے ۔ ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا ۔