Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِىۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿28﴾
اور ( ابراہیم علیہ السلام ) اسی کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات قائم کر گئے تاکہ لوگ ( شرک سے ) باز آتے رہیں ۔
و جعلها كلمة باقية في عقبه لعلهم يرجعون
And he made it a word remaining among his descendants that they might return [to it].
Aur ibrahim ( alh-e-salam ) issi ko apni aulad mein bhi baqi rehney wali baat qaeem ker gaye takay log ( shirk say ) baaz aatey rahen.
اور ابراہیم نے اس ( عقیدے ) کو ایسی بات بنا دیا جو ان کی اولاد میں باقی رہی ، تاکہ لوگ ( شرک سے ) باز آئیں ۔
اور اسے ( ف٤۰ ) اپنی نسل میں باقی کلام رکھا ( ف٤۱ ) کہ کہیں وہ باز آئیں ( ف٤۲ )
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) یہی کلمہ 26 اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں27 ۔
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اس ( کلمۂ توحید ) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ وہ ( اللہ کی طرف ) رجوع کرتے رہیں
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :26 یعنی یہ بات کہ خالق کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ہے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :27 یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی کے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں ۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نامعقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا ۔ عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے ۔ اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا ، پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کام کرتے ۔ مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تقلید آبائی کے قائل نہ تھے ، بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں ، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو ۔