Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
اَهُمۡ يَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّكَ‌ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا‌ ؕ وَرَحۡمَتُ رَبِّكَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ‏ ﴿32﴾
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے ۔
اهم يقسمون رحمت ربك نحن قسمنا بينهم معيشتهم في الحيوة الدنيا و رفعنا بعضهم فوق بعض درجت ليتخذ بعضهم بعضا سخريا و رحمت ربك خير مما يجمعون
Do they distribute the mercy of your Lord? It is We who have apportioned among them their livelihood in the life of this world and have raised some of them above others in degrees [of rank] that they may make use of one another for service. But the mercy of your Lord is better than whatever they accumulate.
Kiya aap kay rab ki rehmat ko yeh taqseem kertay hain? Hum ney hi inn ki zindagniy-e-duniya ki rozi inn mein taqseem ki hai aur aik ko doosray say buland kiya hai takay aik doosray ko matehat ker ley jissay yeh log samettay phirtay hain iss say aap kay rab ki rehmat boht hi behtar hai.
بھلا کیا یہ لوگ ہیں جو تمہارے پروردگار کی رحمت تقسیم کریں گے؟ ( ٨ ) دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں اور ہم نے ہی ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے ، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں ۔ اور تمہارے پروردگار کی رحمت تو اس ( دولت ) سے کہیں بہتر چیز ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں ۔ ( ٩ )
کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ( ف٤۹ ) ہم نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا ( ف۵۰ ) اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی ( ف۵۱ ) کہ ان میں ایک دوسرے کی ہنسی بنائے ( ف۵۲ ) اور تمہارے رب کی رحمت ( ف۵۳ ) ان کی جمع جتھا سے بہتر ( ف۵٤ )
کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں ، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں31 ۔ اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو ( ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں32 ۔
کیا آپ کے رب کی رحمتِ ( نبوّت ) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے ( اسبابِ ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر ( وسائل و دولت میں ) درجات کی فوقیت دیتے ہیں ، ( کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں ) کہ ان میں سے بعض ( جو امیر ہیں ) بعض ( غریبوں ) کا مذاق اڑائیں ( یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو ) ، اور آپ کے رب کی رحمت اس ( دولت ) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ( اور گھمنڈ کرتے ) ہیں
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :31 یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں: پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ ( یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے ) ۔ دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے ، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی کسی اور کے حوالے نہیں کر دی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت ، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز ، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن ، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا ، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا یا گونگا بہرا ، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں ۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے ۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، شہرت ، دولت ، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں ۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا ، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے ۔ تیسری بات یہ کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو ، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے ، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو ، بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل ، علم ، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار ، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں ، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :32 یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص ، یعنی نبوت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو ، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دی گئی ہے ۔ یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت کا معیار کچھ اور ہے ۔ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے ۔ اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟