Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۫ٮِٕه فَقَالَ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿46﴾
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو ( موسیٰ علیہ السلام نے جاکر ) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں ۔
و لقد ارسلنا موسى بايتنا الى فرعون و ملاىه فقال اني رسول رب العلمين
And certainly did We send Moses with Our signs to Pharaoh and his establishment, and he said, "Indeed, I am the messenger of the Lord of the worlds."
Aur hum ney musa ( alh-e-salam ) ko apni nishaniyan dey ker firaon aur usskay umraa kay pass bheja to ( Musa alh-e-salam ney jaa ker ) kaha kay mein tamam jahano kay rab ka rasool hun.
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تھا ، چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ : میں رب العالمین کا بھیجا ہو پیغمبر ہوں ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشایوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو اس نے فرمایا بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے ، (
ہم نے41 موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے 42 ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا ، اور اس نے جا کر کہا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ۔
اور یقیناً ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا: بیشک میں سب جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :41 یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرماتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے ، اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے ۔ دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ علیہ السلام کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھ رہے ہیں ۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتا دیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق اور اس کی تنبیہات کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے ۔ اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :42 ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے ، یعنی عصا اور ید بیضا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، ھواشی ۸۷ تا ۸۹ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۱۲ ۔ ۱۳ ۔ ۲۹ ۔ ۳۰ ، الشعراء ، حواشی ۲٦ تا ۲۹ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ، القصص ، حواشی ٤٤ ۔ ٤۵ ) ۔
قلاباز بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں آپ کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہو جانا لکڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا ۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو ۔ اور نبوت موسیٰ پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں ، مینڈک آئے اور کھیت ، مال ، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے ۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کر تے ان سے قول قرار کرتے آپ دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا ۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پس ان کا جناب موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے ۔ اور آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ ١٣٣؁ ) 7- الاعراف:133 ) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے ۔