Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَهٗ فَاَطَاعُوۡهُ‌ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ‏ ﴿54﴾
اس نے اپنی قوم کو بہلایا پھسلایا اور انہوں نے اسی کی مان لی یقیناً یہ سارے ہی نافرمان لوگ تھے ۔
فاستخف قومه فاطاعوه انهم كانوا قوما فسقين
So he bluffed his people, and they obeyed him. Indeed, they were [themselves] a people defiantly disobedient [of Allah ].
Uss ney apni qom ko behlaya phuslaya aur unhon ney ussi ki maan li yaqeenan yeh saray hi nafarman log thay.
اس طرح اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا اور انہوں نے اس کا کہنا مان لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب گنہگار لوگ تھے ۔ ( ١٥ )
پھر اس نے اپنی قوم کو کم عقل کرلیا ( ف۹۳ ) تو وہ اس کے کہنے پر چلے ( ف۹٤ ) بیشک وہ بےحکم لوگ تھے ،
اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ 50 ۔
پس اُس نے ( اِن باتوں سے ) اپنی قوم کو بے وقوف بنا لیا ، سو اُن لوگوں نے اُس کا کہنا مان لیا ، بیشک وہ لوگ ہی نافرمان قوم تھے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :50 اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے ، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے ، کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے ، اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے ، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور اخلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے ، اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف ، بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں ۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تھا ، واقعی وہ وہی کچھ ہیں ۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر فاسق ہوتے ہیں ۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا ۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت ۔ ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے ، ہر جبار کے آگے رہنے ، ہر باطل کو قبول کرنے ، اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔