Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
اِنۡ هُوَ اِلَّا عَبۡدٌ اَنۡعَمۡنَا عَلَيۡهِ وَجَعَلۡنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَؕ‏ ﴿59﴾
عیسٰی ( علیہ السلام ) بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا ۔
ان هو الا عبد انعمنا عليه و جعلنه مثلا لبني اسراءيل
Jesus was not but a servant upon whom We bestowed favor, and We made him an example for the Children of Israel.
Essa ( alh-e-salam ) bhi sirf banda hi hai jiss per hum ney ehsan kiya aur ussay bani-isareel kay liye nishan-e-qudrat banaya.
وہ ( یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) تو بس ہمارے ایک بندے تھے جن پر ہم نے انعام کیا تھا ، اور بنی اسرائیل کے لیے ان کو ایک نمونہ بنایا تھا ۔
وہ تو نہیں مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا ( ف۱۰۰ ) اور اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے عجیب نمونہ بنایا ( ف۱۰۱ ) (
ابن مریم ( علیہ السلام ) اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا 53 ۔
وہ ( عیسٰی علیہ السلام ) محض ایک ( برگزیدہ ) بندہ تھے جن پر ہم نے انعام فرمایا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے ( اپنی قدرت کا ) نمونہ بنایا تھا
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :53 قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بے باپ کے پیدا کرنا ، اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد ۔ وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا ۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے ۔ وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کر دیتے ۔ حتیٰ کہ وہ مردے جِلا دیتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے ۔ ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنا دیا تھا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، آل عمران ، حواشی٤۲تا ٤٤ ، النساء ، ۱۹ ، المائدہ ، حواشی ٤۰ ۔ ٤٦ ۔ ۱۲۷ ، جلد سوم ، مریم ، حواشی ۱۵ تا ۲۲ ، الانبیاء ، حواشی ، ۸۸ تا ۹۰ ، المومنون ، حاشیہ ٤۳ ) ۔