Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَاِنَّهٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوۡنِ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏ ﴿61﴾
اور یقیناً عیسیٰ ( علیہ السلام ) قیامت کی علامت ہے پس تم ( قیامت ) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے ۔
و انه لعلم للساعة فلا تمترن بها و اتبعون هذا صراط مستقيم
And indeed, Jesus will be [a sign for] knowledge of the Hour, so be not in doubt of it, and follow Me. This is a straight path.
Aur yaqeenan essa ( alh-e-salam ) qayamat ki alamat hai pus tum qayamt kay baray mein shak na kero aur meri tabeydaari kero yehi seedhi raah hai.
اور یقین رکھو کہ وہ ( یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ ( ١٨ ) اس لیے تم اس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مانو ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔
اور بیشک عیسی ٰ قیامت کی خبر ہے ( ف۱۰٤ ) تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا ( ف۱۰۵ ) یہ سیدھی راہ ہے ،
اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے 55 ، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو ، یہی سیدھا راستہ ہے ،
اور بیشک وہ ( عیسٰی علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ ) قیامت کی علامت ہوں گے ، پس تم ہرگز اس میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا ، یہ سیدھا راستہ ہے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :55 اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے ، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی ۔ لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے ۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے ۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہی سیاق و سباق کے لحاظ سے درست ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس ، مجاہد ، عکرمہ ، قتادہ ، سدی ، ضحاک ، ابواالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے ۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے ۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے ۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں ۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ پس تم اس میں شک نہ کرو ۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے ، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے ۔