Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
قُلۡ اِنۡ كَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِيۡنَ‏ ﴿81﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا ۔
قل ان كان للرحمن ولد فانا اول العبدين
Say, [O Muhammad], "If the Most Merciful had a son, then I would be the first of [his] worshippers."
Aap keh dijiye! Kay agar bil-faraz rehman ki aulad ho to mein sab say pehlay ibadat kerney wala hota.
۔ ( اے پیغمبر ) کہہ دو کہ : اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت کرنے والا میں ہوتا ۔ ( ٢١ )
تم فرماؤ بفرض محال رحمٰن کے کوئی بچہ ہوتا ، تو سب سے پہلے میں پوجتا ( ف۱۳۰ )
ان سے کہو ، اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا 64 ۔
فرما دیجئے کہ اگر ( بفرضِ محال ) رحمان کے ( ہاں ) کوئی لڑکا ہوتا ( یا اولاد ہوتی ) تو میں سب سے پہلے ( اس کی ) عبادت کرنے والا ہوتا
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :64 مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا ، اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کرنا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے ۔ میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں ۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا ۔
جہالت و خباثت کی انتہاء اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے اے نبی آپ اعلان کر دیجئے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کی اولاد ہو تو مجھے سر جھکانے میں کیا تامل ہے ؟ نہ میں اس کے فرمان سے سرتابی کروں نہ اس کے حکم کو ٹالوں اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے میں اسے مانتا اور اس کا اقرار کرتا لیکن اللہ کی ذات ایسی نہیں جس کا کوئی ہمسر اور جس کا کوئی کفو ہو یاد رہے کہ بطور شرط کے جو کلام وارد کیا جائے اس کا وقوع ضروری نہیں بلکہ امکان بھی ضروری نہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر حضرت حق جل و علا اولاد کی خواہش کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اس کی شان وحدانیت اس کے خلاف ہے اس کا تنہا غلبہ اور قہاریت اس کی صریح منافی ہے بعض مفسریں نے ( عابدین ) کے معنی انکاری کے بھی کئے ہیں جیسے سفیان ثوری ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ( عابدین ) سے مراد یہاں ( اول الجاحدین ) ہے یعنی پہلا انکار کرنے والا اور یہ ( عبد یعبد ) کے باب سے ہے اور جو عبادت کے معنی میں ہوتا ہے ۔ وہ ( عبد یعبد ) سے ہوتا ہے ۔ اسی کی شہادت میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ ہوا حضرت عثمان نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15؀ ) 46- الأحقاف:15 ) یعنی حمل کی اور دودھ کی چھٹائی کی مدت ڈھائی سال کی ہے ۔ اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت ( وفصالہ فی عامین ) دو سال کے اندر اندر دودھ چھڑانے کی مدت ہے حضرت عثمان ان کا انکار نہ کر سکے اور فوراً آدمی بھیجا کہ اس عورت کو واپس کرو یہاں بھی لفظ ( عبد ) ہے یعنی انکار نہ کر سکے ۔ ابن وہب کہتے ہیں ( عبد ) کے معنی نہ ماننا انکار کرنا ہے ۔ شاعر کے شعر میں بھی ( عبد ) انکار کے اور نہ ماننے کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس قول میں نر ہے اس لئے کہ شرط کے جواب میں یہ کچھ ٹھیک طور پر لگتا نہیں اسے ماننے کے بعد مطلب یہ ہو گا کہ اگر رحمان کی اولاد ہے تو میں پہلا منکر ہوں ۔ اور اس میں کلام کی خوبصورتی قائم نہیں رہتی ۔ ہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ( ان ) شرط کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ نفی کے لئے ہے جیسے کہ ابن عباس سے منقول بھی ہے ۔ تو اب مضمون کلام یہ ہو گا کہ چونکہ رحمان کی اولاد نہیں پس میں اس کا پہلا گواہ ہوں حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ کلام عرب کے محاورے کے مطابق ہے یعنی نہ رحمان کی اولاد نہ میں اس کا قائل و عابد ۔ ابو صخر فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تو پہلے ہی اس کا عابد ہوں کہ اس کی اولاد ہے ہی نہیں اور میں اس کی توحید کو ماننے میں بھی آگے آگے ہوں مجاہد فرماتے ہیں میں اس کا پہلا عبادت گذار ہوں اور موحد ہوں اور تمہاری تکذیب کرنے والا ہوں ۔ امام بخاری فرماتے ہیں میں پہلا انکاری ہوں یہ دونوں لغت میں ( عابد ) اور ( عبد ) اور اول ہی زیادہ قریب ہے اس وجہ سے کہ یہ شرط و جزا ہے لیکن یہ ممتنع اور محال محض ناممکن ۔ سدی فرماتے ہیں اگر اس کی اولاد ہوتی تو میں اسے پہلے مان لیتا کہ اس کی اولاد ہے لیکن وہ اس سے پاک ہے ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور جو لوگ ( ان ) کو نافیہ بتلاتے ہیں ان کے قول کی تردید کرتے ہیں اسی لئے باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا حال اس سے پاک بہت دور اور بالکل منزہ ہے کہ اس کی اولاد ہو وہ فرد احمد صمد ہے اس کی نظیر کفو اولاد کوئی نہیں ارشاد ہوتا ہے کہ نبی انہیں اپنی جہالت میں غوطے کھاتے چھوڑو اور دنیا کے کھیل تماشوں میں مشغول رہنے دو اسی غفلت میں ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔ اس وقت اپنا انجام معلوم کرلیں پھر ذات حق کی بزرگی اور عظمت اور جلال کا مزید بیان ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کی عابد ہے اس کے سامنے پست اور عاجز ہے ۔ وہ خبیر و علیم ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کو اور تمہارے ہر ہر عمل کو جانتا ہے وہ سب کا خالق و مالک سب کو بسانے اور بنانے والا سب پر حکومت اور سلطنت رکھنے والا بڑی برکتوں والا ہے ۔ وہ تمام عیبوں سے کل نقصانات سے پاک ہے وہ سب کا مالک ہے بلندیوں اور عظمتوں والا ہے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی بدل سکے ہر ایک پر قابض وہی ہے ہر ایک کام اس کی قدرت کے ماتحت ہے قیامت آنے کے وقت کو وہی جانتا ہے اس کے سوا کسی کو اس کے آنے کے ٹھیک وقت کا علم نہیں ساری مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی وہ ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ دے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کافروں کے معبودان باطل جنہیں یہ اپنا سفارشی خیال کئے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی بھی سفارش کے لئے آگے بڑھ نہیں سکتا کسی کی شفاعت انہیں کام نہ آئے گی اسکے بعد استثناء منقطع ہے یعنی لیکن جو شخص حق کا اقراری اور شاہد ہو اور وہ خود بھی بصیرت و بصارت پر یعنی علم و معرفت والا ہو اسے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کی شفاعت کار آمد ہو گی ان سے اگر تو پوچھے کہ ان کا خالق کون ہے ؟ تو یہ اقرار کریں گے کہ اللہ ہی ہے افسوس کہ خالق اسی ایک کو مان کر پھر عبادت دوسروں کی بھی کرتے ہیں جو محض مجبور اور بالکل بےقدرت ہیں اور کبھی اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے کہ جب پیدا اسی ایک نے کیا تو ہم دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ جہالت و خباثت کند ذہنی اور بےوقوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسی سیدھی سی بات مرتے دم تک سمجھ نہ آئی ۔ بلکہ سمجھانے سے بھی نہ سمجھا اسی لئے تعجب سے ارشاد ہوا کہ اتنا مانتے ہوئے پھر کیوں اندھے ہو جاتے ہو ؟ پھر ارشاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ کہنا کہا یعنی اپنے رب کی طرف شکایت کی اور اپنی قوم کی تکذیب کا بیان کیا کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے جیسے اور آیت میں ہے ( وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا 30؀ ) 25- الفرقان:30 ) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت اللہ کے سامنے ہو گی کہ میری امت نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ امام ابن جریر بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں امام بخاری فرماتے ہیں ابن مسعود کی قرأت لام کے زیر کیساتھ بھی نقل کی ہے اس کی ایک توجیہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیت ( اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀ ) 43- الزخرف:80 ) پر معطوف ہے دوسرے یہ کہ یہاں فعل مقدر مانا جائے یعنی ( قال ) کو مقدر مانا جائے ۔ دوسری قرأت یعنی لام کے زیر کیساتھ جب ہو تو یہ عجب ہو گا آیت ( وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 85 ؀ ) 43- الزخرف:85 ) پر تو تقدیر یوں ہو گی ۔ کہ قیامت کا علم اور اس قول کا علم اس کے پاس ہے ختم سورہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ مشرکین سے منہ موڑ لے اور ان کی بدزبانی کا بد کالمی سے جواب نہ دو بلکہ ان کے دل پر چانے کی خاطر قول میں اور فعل میں دونوں میں نرمی برتو کہہ دو کہ سلام ہے ۔ انہیں ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ۔ اس میں رب قدوس کی طرف سے مشرکین کو بڑی دھمکی ہے اور یہی ہو کر بھی رہا ۔ کہ ان پر وہ عذاب آیا جو ان سے ٹل نہ سکا حضرت حق جل و علا نے اپنے دین کو بلند و بالا کیا اپنے کلمہ کو چاروں طرف پھیلا دیا اپنے موحد مومن اور مسلم بندوں کو قوی کر دیا اور پھر انہیں جہاد کے اور جلا وطن کرنے کے احکام دے کر اس طرح دنیا میں غالب کر دیا اللہ کے دین میں بیشمار آدمی داخل ہوئے اور مشرق و مغرب میں اسلام پھیل گیا فالحمدللہ ۔ واللہ اعلم ۔