Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَقِيۡلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمٌ لَّا يُؤۡمِنُوۡنَ‌ۘ‏ ﴿88﴾
اور ان کا ( پیغمبر کا اکثر ) یہ کہنا کہ اے میرے رب! یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے ۔
و قيله يرب ان هؤلاء قوم لا يؤمنون
And [ Allah acknowledges] his saying, "O my Lord, indeed these are a people who do not believe."
Aur inn ka ( payghumbar ka aksar ) yeh kehna kay aey meray rab! Yaqeenan yeh woh log hain jo eman nahi latay.
اور اللہ کو پیغمبر کی اس بات کا بھی علم ہے کہ : یا رب ! یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے ۔ ( ٢٣ )
مجھے رسول ( ف۱٤۰ ) کے اس کہنے کی قسم ( ف۱٤۱ ) کہ اے میرے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ،
قسم ہے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اس قول کی کہ اے رب ، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے 70 ۔
اور اُس ( حبیبِ مکرّم ) کے ( یوں ) کہنے کی قسم کہ یا ربّ! بیشک یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان ( ہی ) نہیں لاتے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :70 یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعلق : فَاَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں ۔ رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں ، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے ، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو ۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے ، فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں ۔