Surah

Information

Surah # 44 | Verses: 59 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 64 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ‏ ﴿3﴾
یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں ۔
انا انزلنه في ليلة مبركة انا كنا منذرين
Indeed, We sent it down during a blessed night. Indeed, We were to warn [mankind].
Yaqeenan hum ney issay ba-barkat raat mein utara hai be-shak hum daraney walay hain.
کہ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے ۔ ( ١ ) ( کیونکہ ) ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے ۔
بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ( ف۳ ) بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ( ف٤ )
کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے ، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے1 ۔
بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :1 کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر 1 میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ہم ہیں ، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اسے نازل کیا گیا ۔ یعنی نادان لوگ ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے ، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں ۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ہم نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا ۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن ام الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا ۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے ، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے ۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن ( البقرہ ، 185 ) ۔
عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ Ǻ۝ښ ) 97- القدر:1 ) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ١٨٥؁ ) 2- البقرة:185 ) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔ سورہ بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس مے قرآن شریف ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بےدلیل ہے ۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے ۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کرلیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے ۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے ۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے ۔