Surah

Information

Surah # 44 | Verses: 59 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 64 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏ ﴿4﴾
اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
فيها يفرق كل امر حكيم
On that night is made distinct every precise matter -
Issi raat mein her aik mazboot kaam ka faisla kiya jata hai.
اسی رات میں ہر حکیمانہ معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے ۔ ( ٢ )
اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ( ف۵ )
یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ2 ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے3 ۔
اس ( رات ) میں ہر حکمت والے کام کا ( جدا جدا ) فیصلہ کر دیا جاتا ہے
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :2 اصل میں لفظ اَمْرٍ حَکِیْم استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے ، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے ، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ۔ سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :3 سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ، اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے ، کیونکہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ لیکن ابن عباس ، ابن عمر ، مجاہد ، قتادہ ، حسن بصری ، سعید بن جبیر ، ابن زید ، ابو مالک ، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے ، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے ، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے ، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جاسکتیں ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے ، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ۔ ( احکام القرآن )