Surah

Information

Surah # 44 | Verses: 59 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 64 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَهُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ كَرِيۡمٌۙ‏ ﴿17﴾
یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو ( بھی ) آزما چکے ہیں جن کے پاس ( اللہ کا ) با عزت رسول آیا ۔
و لقد فتنا قبلهم قوم فرعون و جاءهم رسول كريم
And We had already tried before them the people of Pharaoh, and there came to them a noble messenger,
Yaqeenan inn say pehlay hum qom-e-firaon ko ( bhi ) aazma chukay hain jinn kay pass ( Allah ka ) ba-izzat rasool aaya.
اور ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمایا تھا اور ان کے پاس ایک معزز پیغمبر آئے تھے ۔
اور بیشک ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا اور ان کے پاس ایک معزز رسول تشریف لایا ( ف۱٦ )
ہم ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں ۔ ان کے پاس ایک نہایت شریف رسول14 آیا
اور در حقیقت ہم نے اِن سے پہلے قومِ فرعون کی ( بھی ) آزمائش کی تھی اور اُن کے پاس بزرگی والے رسول ( موسٰی علیہ السلام ) آئے تھے
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :14 اصل میں رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ کریم کا لفظ جب انسان کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہترین شریفانہ خصائل اور نہایت قابل تعریف صفات سے متصف ہے ۔ معمولی خوبیوں کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا ۔
قبطیوں کا انجام ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ کو بھیجا انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کر دو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے ۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں ۔ ابن عباس اور ابو صالہ تو یہی کہتے ہیں اور قتادہ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے ایک لمبی مدت ان میں گذاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کر لی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لئے ہر چند جتن کر لئے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے انکے لئے بددعا کی جیسے اور آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ دردناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے موسیٰ اور اے ہارون میں نے تمہاری دعا قبول کر لی اب تم استقامت پر تل جاؤ یہاں فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بےخبری میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بےخوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لئے دریا کو خشک کر دوں گا اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہوگئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہدیں کہ اب تو اپنی روانی پر آجا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتا دی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے ۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بےخوف ہو جاؤ گے غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں ( رھواً ) کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے ۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہوگئے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آ جاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں ۔ خلیج اسکندریہ ، دمیاط ، خلیج سردوس ، خلیج منصف ، خلیج منتہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا بڑے امن چین کی زندگی گذار رہے تھے لیکن مغرور ہوگئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے ۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گذشتہ کل کی طرح بےنشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہوگئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطافرمادیں اور بے ایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے ہر بندے کے لئے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں ۔ جب یہ مر جاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آجائے گا یاد رکھو مومن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مومن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا ۔ سنو ہر بندے کے لئے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں ، حضرت ابن عباس سے یہ سوال ہوا تو آپ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا بلکہ آپ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مومن پر روتی رہتی ہے حضرت مجاہد نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ نے فرمایا سبحان اللہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان وزمین ہر ایمان دار پر روتے نہیں ؟ فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہو جانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے ۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہو گیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے حضرت حسین کے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہو گیا تھا ( ابن ابی حاتم ) یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل حسین کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہو جانا اس کا رونا ہے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قتل حسین کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمند خون نکلتا تھا ۔ اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے ۔ لیکن یہ سب باتیں بےبنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں ۔ خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور قتل حسین سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہو ا ۔ آپ ہی کے والد ماجد حضرت علی بھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا اور کچھ ہوا ۔ حضرت عثمان بن عفان کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بےدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں قتل کیا جاتا ہے فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل حسین کی نسبت مشہور کر رکھی ہے ۔ ان سب کو بھی جانے دیجئے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے جس روز آپ رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا ۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے آیت ( قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤؁ ) 7- الاعراف:144 ) اس سے بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لئے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ان سے یقینا افضل ہیں یا کم ازکم برابر ۔ اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت و برہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے صاف صاف امتحان تھا ۔