سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :15
یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں حضرت موسیٰ کے جو اقوال نقل کیے جا رہے ہیں وہ ایک وقت میں ایک ہی مسلسل تقریر کے اجزا نہیں ہیں ، بلکہ سالہا سال کے دوران میں مختلف مواقع پر جو باتیں انہوں نے فرعون اور اس کے اہل دربار سے کہی تھیں ان کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸۳ تا ۹۷ ، یونس ، حواشی ، ۷۲تا ۹۳ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۱۸ الف تا ۵۲ ، الشعراء ، حواشی ۷ تا ٤۹ ، النمل ، حواشی ۸ تا ۱۷ ، القصص ، حواشی ٤٦ تا ۵٦ ، ۔ جلد چہارم ، المومن ، آیات 23 ت 46 ۔ الزخرف 46 تا 56 مع حواشی )
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :16
اصل میں اَدُّوْا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ان کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اوپر ہم نے کیا ہے اور اس کے لحاظ سے یہ اس مطالبے کا ہم معنی ہے جو سورہ اَعراف ( آیت 105 ) ، سورہ طٰہٰ ( 47 ) اور الشعراء ( 17 ) میں گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو دوسرا تر جمہ ، جو حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے ، یہ ہے کہ اللہ کے بندو میرا حق ادا کرو یعنی میری بات مانو ، مجھ پر ایمان لاؤ ، اور میری ہدایت کی پیروی کرو ، یہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر میرا حق ہے ۔ بعد کا یہ فقرہ کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں اس دوسرے مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :17
یعنی بھروسے کے قابل رسول ہوں ۔ اپنی طرف سے کوئی بات ملا کر کہنے والا نہیں ہوں ۔ نہ اپنی کسی ذاتی خواہش یا غرض کے لیے خود ایک حکم یا قانون گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کرنے والا ہوں ۔ مجھ پر تم یہ اعتماد کرسکتے ہو کہ جو کچھ میرے بھیجنے والے نے کہا ہے وہی بےکم و کاست تم تک پہنچاؤں گا ۔ ( واضح رہے کہ یہ دو فقرے اس وقت کے ہیں جب حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے اپنی دعوت پیش فرمائی تھی ) ۔