Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡيَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَ تَصۡرِيۡفِ الرِّيٰحِ اٰيٰتٌ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿5﴾
اور رات دن کے بدلے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالٰی آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ، ( اس میں ) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں ۔
و اختلاف اليل و النهار و ما انزل الله من السماء من رزق فاحيا به الارض بعد موتها و تصريف الريح ايت لقوم يعقلون
And [in] the alternation of night and day and [in] what Allah sends down from the sky of provision and gives life thereby to the earth after its lifelessness and [in His] directing of the winds are signs for a people who reason.
Aur raat din kay badlaney mein aur jo kuch rozi Allah Taalaa aasman say nazil farma ker zamin ko usski mot kay baad zindah ker deta hai ( iss mein aur hawaon kay badlney mein bhi unn logon kay liye jo awal rakhtay hain nishaniyan hain.
نیز رات اور دن کے آنے جانے میں اور اللہ نے آسمان سے رزق کا جو ذریعہ اتارا ، پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد نئی زندگی دی ، اس میں اور ہواؤں کی گردش میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں ۔
اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں ( ف٤ ) اور اس میں کہ اللہ نے آسمان سے روزی کا سبب مینہ اتارا تو اس سے زمین کو اس کے مَرے پیچھے زندہ کیا اور ہواؤں کی گردش میں ( ف۵ ) نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے ،
اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں 4 ، اور اس رزق میں 5 جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھاتا ہے 6 ، اور ہواؤں کی گردش میں 7 بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔
اور رات دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور ( بصورتِ بارش ) اُس رِزق میں جسے اللہ آسمان سے اتارتا ہے ، پھر اس سے زمین کو اُس کی مُردنی کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور ( اسی طرح ) ہواؤں کے رُخ پھیرنے میں ، اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہیں
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :4 رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں ، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک ، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے ، پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہو جاتے ہیں ۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں ، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے ، اور ان دونوں کروں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے ، اور وہ کوئی اندھا بہرا بے حکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بے شمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات ، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، یونس ، حاشیہ ٦۵ ، جلد سوم ، النمل ، حاشیہ ۱۰٤ ، القصص ، حاشیہ ۹۲ ۔ جلد چہارم ، لقمان ، آیت 29 ، حاشیہ 50 ۔ یٰس ، آیت 37 ، حاشیہ 32 ) سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :5 رزق سے مراد یہاں بارش ہے ، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :6 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ ۱۷ ، الفرقان ، حواشی ٦۲تا ٦۵ ، الشعراء ، حاشیہ ۵ ، النمل ، حواشی ۷۳ ۔ ۷٤ ، الروم ، حواشی ۳۵ ۔ ۷۳ ۔ جلد چہارم ، یٰس حواشی 26 تا 31 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :7 ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں ، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے ۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے ۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم ۔ کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے ۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز ، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب ۔ کبھی بارش لانے والی ہوا چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے ۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں ۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے ، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے ۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کر دیے ہیں ، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں ، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے ، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے ۔