Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
يَّسۡمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتۡلٰى عَلَيۡهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسۡتَكۡبِرًا كَاَنۡ لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا‌ ۚ فَبَشِّرۡهُ بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍ‏ ﴿8﴾
جو آیتیں اللہ کی اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر ( پہنچا ) دیجئے ۔
يسمع ايت الله تتلى عليه ثم يصر مستكبرا كان لم يسمعها فبشره بعذاب اليم
Who hears the verses of Allah recited to him, then persists arrogantly as if he had not heard them. So give him tidings of a painful punishment.
Jo aayaten Allah ki apnay samney parhi jati hui sunay phir bhi ghuroor kerta hua iss tarah ara rahey kay goya suni hi nahi to aisay logon ko dard-naak azab ki khabar ( phoncha ) dijiye.
جو اللہ کی آیتیں سنتا ہے جبکہ وہ اسے پڑھ کر سنائی جارہی ہوتی ہیں ، پھر بھی وہ تکبر کے عالم میں اس طرح ( کفر پر ) اڑا رہتا ہے جیسے اس نے وہ آیتیں سنی ہی نہیں ۔ لہذا ایسے شخص کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔
اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ہٹ پر جمتا ہے ( ف۷ ) غرور کرتا ( ف۸ ) گویا انہیں سنا ہی نہیں تو اسے خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی ،
جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں ، اور وہ ان کو سنتا ہے ، پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں9 ۔ ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مژدہ سنا دو ۔
جو اللہ کی ( اُن ) آیتوں کو سنتا ہے جو اُس پر پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں پھر ( اپنے کفر پر ) اصرار کرتا ہے تکبّر کرتے ہوئے ، گویا اُس نے انہیں سنا ہی نہیں ، تو آپ اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دیں
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :9 بالفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے ، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کر چکا تھا ۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے ۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور وہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسری قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا ۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہے ۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں ، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی ۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں ، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو ۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا ، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور و فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا ۔