Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
قُلْ لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يَغۡفِرُوۡا لِلَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ اَيَّامَ اللّٰهِ لِيَجۡزِىَ قَوۡمًۢا بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿14﴾
آپ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ، تاکہ اللہ تعالٰی ایک قوم کو ان کے کرتوتوں کا بدلہ دے ۔
قل للذين امنوا يغفروا للذين لا يرجون ايام الله ليجزي قوما بما كانوا يكسبون
Say, [O Muhammad], to those who have believed that they [should] forgive those who expect not the days of Allah so that He may recompense a people for what they used to earn.
Aap eman walon say keh den kay woh inn logon say dar-guzar keren jo Allah kay dinon ki tawakka nahi rakhtay takay Allah Taalaa aik qom ko unn kay kartooton ka badla day.
۔ ( اے پیغمبر ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان سے کہو کہ جو لوگ اللہ کے دنوں کا اندیشہ نہیں رکھتے ، ( ٢ ) ان سے درگذر کریں ( ٣ ) تاکہ اللہ لوگوں کو ان کاموں کا دبلہ دے جو وہ کیا کرتے تھے ۔ ( ٤ )
ایمان والوں سے فرماؤ درگزریں ان سے جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ( ف۱۷ ) تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کی کمائی کا بدلہ دے ( ف۱۸ ) (
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے 18 ، ان کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے 19
آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ وہ اُن لوگوں کو نظر انداز کر دیں جو اللہ کے دنوں کی ( آمد کی ) امید اور خوف نہیں رکھتے تاکہ وہ اُن لوگوں کو اُن ( کے اعمال ) کا پورا بدلہ دے دے جو وہ کمایا کرتے تھے
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں اَلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللہِ ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ وہ یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں ۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں ۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ، یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی ، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :19 مفسریں نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں ، اور آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے ۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں ان کا اجر عطا فرمائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی ۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ۔ لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ درگزر کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے ، بلکہ اس موقع پر صبر ، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں درگزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے ۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے ۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے ۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں ۔ جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو ، اس سے پرہیز نہ کیا جائے ۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے ۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا ۔ درگزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا ۔