Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
وَاِذَا قِيۡلَ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّالسَّاعَةُ لَا رَيۡبَ فِيۡهَا قُلۡتُمۡ مَّا نَدۡرِىۡ مَا السَّاعَةُ ۙ اِنۡ نَّـظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحۡنُ بِمُسۡتَيۡقِنِيۡنَ‏ ﴿32﴾
اور جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہو جاتا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں ۔
و اذا قيل ان وعد الله حق و الساعة لا ريب فيها قلتم ما ندري ما الساعة ان نظن الا ظنا و ما نحن بمستيقنين
And when it was said, 'Indeed, the promise of Allah is truth and the Hour [is coming] - no doubt about it,' you said, 'We know not what is the Hour. We assume only assumption, and we are not convinced.' "
Aur jabb kabhi kaha jata kay Allah ka wada yaqeenan sacha hai aur qayamat kay aaney mein koi shak nahi to tum jawab detay thay kay hum nahi jantay qayamat kiya cheez hai? Humen kuch yun hi sa khayal hojata hai lekin humen yaqeen nahi.
اور جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور قیامت وہ حقیقت ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے ، تو تم یہ کہتے تھے کہ : ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہوتی ہے ؟ اس کے بارے میں ہم جو کچھ خیال کرتے ہیں ، بس ایک گمان سا ہوتا ہے ، اور ہمیں یقین بالکل نہیں ہے ۔
اور جب کہا جاتا بیشک اللہ کا وعدہ ( ف٦۱ ) سچا ہے اور قیامت میں شک نہیں ( ف٦۲ ) تم کہتے ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے ہمیں تو یونہی کچھ گمان سا ہوتا ہے اور ہمیں ( ف٦۳ ) یقین نہیں ،
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے ، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے 44 ۔
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت ( کے آنے ) میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے ، ہم اُسے وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور ہم ( اِس پر ) یقین کرنے والے نہیں ہیں
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :44 اس سے پہلے آیت 24 میں جن لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے وہ آخرت کا قطعی اور کھلا انکار کرنے والے تھے ۔ اور یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کا یقین رکھتے اگرچہ گمان کی حد تم اس کے امکان سے منکر نہیں ہیں ۔ بظاہر ان دونوں گروہوں میں اس لحاظ سے بڑا فرق ہے کہ ایک بالکل منکر ہے اور دوسرا اس کے ممکن ہونے کا گمان رکھتا ہے ۔ لیکن نتیجے اور انجام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ اس لیے کہ آخرت کے انکار اور اس پر یقین نہ ہونے کے اخلاقی نتائج بالکل ایک جیسے ہیں ۔ کوئی شخص خواہ آخرت کو نہ مانتا ہو ، یا اس کا یقین نہ رکھتا ہو ، دونوں صورتوں میں لازماً وہ خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس سے خالی ہو گا ، اور یہ عدم احساس اس کو لازماً فکر و عمل کی گمراہیوں میں مبتلا کر کے رہے گا ۔ صرف آخرت کا یقین ہی دنیا میں آدمی کے رویے کو درست رکھ سکتا ہے ۔ یہ اگر نہ ہو تو شک اور انکار ، دونوں اسے ایک ہی طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش پر ڈال دیتے ہیں ۔ اور چونکہ یہی غیر ذمہ دارانہ روش آخرت کی بد انجامی کا اصل سبب ہے ، اس لیے دوزخ میں جانے سے انکار کرنے والا بچ سکتا ہے ، نہ یقین رکھنے والا ۔