Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ يَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَنۡ لَّا يَسۡتَجِيۡبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ وَهُمۡ عَنۡ دُعَآٮِٕهِمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿5﴾
اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں ۔
و من اضل ممن يدعوا من دون الله من لا يستجيب له الى يوم القيمة و هم عن دعاىهم غفلون
And who is more astray than he who invokes besides Allah those who will not respond to him until the Day of Resurrection, and they, of their invocation, are unaware.
Aur iss say barh ker gumrah aur kon hoga? Jo Allah kay siwa aison ko pukarta hai jo qayamat tak uss ki dua qabool na ker saken bulkay unn kay pukarney say mehaz baykhabar hon.
اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان ( من گھڑت دیوتاؤں ) کو پکارے جو قیامت کے دن تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے ، اور جن کو ان کی پکار کی خبر تک نہیں ہے ۔
اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کے سوا ایسوں کو پوجے ( ف۱۱ ) جو قیامت تک اس کی نہ سنیں اور انہیں ان کی پوجا کی خبر تک نہیں ( ف۱۲ )
آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے 5 بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں 6 ،
اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے ( بتوں ) کی عبادت کرتا ہے جو قیامت کے دن تک اسے ( سوال کا ) جواب نہ دے سکیں اور وہ ( بت ) ان کی دعاء و عبادت سے ( ہی ) بے خبر ہیں
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :5 جواب دینے سے مراد جوابی کاروائی کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں بآواز جواب دینا یا تحریر کی شکل میں لکھ کر بھیج دینا ۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ان معبودوں سے فریاد یا استغاثہ کرے ، یا ان سے کوئی دعا مانگے ، تو چونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور کوئی اختیار نہیں ہے ، اس لیے وہ اس کی درخواست پر کوئی کارروائی نفی یا اثبات کی شکل میں نہیں کر سکتے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، الزمر ، حاشیہ نمبر33 ) قیامت تک جواب نہ دے سکنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے اس وقت تک تو معاملہ صرف اسی حد پر رہے گا کہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہ ملے گا ، لیکن جب قیامت آ جائے گی تو اس سے آگے بڑھ کر معاملہ یہ پیش آئے گا کہ وہ معبود اپنے ان عابدوں کے الٹے دشمن ہوں گے ، جیسا کہ آگے کی آیت میں آ رہا ہے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :6 یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں ۔ نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں ، نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے ۔ اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں ۔ ایک ، بے روح اور بے عقل مخلوقات دوسرے ، وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں ۔ تیسرے ، وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ۔ پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے ۔ رہے دوسری قسم کے معبود ، جو اللہ کے مقرب انسان تھے ، تو ان کے بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں ۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں ، اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی ، اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ میں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے بے خبر رہنے کے بھی دو ہی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہان دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں ، اس لیے کہ یہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی ، اور خدا ان ظالموں کو ہرگز خوش نہیں کرنا چاہتا ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کے موجب ہیں ، اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توبیخ سنوا دی گئی ، کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کی موجب ہے ۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کی موجب ، یا مجرمین کے لیے فرحت کی موجب ہو وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی ۔ اس تشریح سے سماع موتیٰ کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے ۔