Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَـمَّا جَآءَهُمۡۙ هٰذَا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌؕ‏ ﴿7﴾
اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی ، کہہ دیتے ہیں کہ یہ توصریح جادو ہے ۔
و اذا تتلى عليهم ايتنا بينت قال الذين كفروا للحق لما جاءهم هذا سحر مبين
And when Our verses are recited to them as clear evidences, those who disbelieve say of the truth when it has come to them, "This is obvious magic."
Aur enhen jabb humari aayaten parh ker sunaee jati hain to munkir log sachi baat ko jabkay unkay pass aa chuki keh detay hain kay yeh to sareeh jadoo hai.
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں اپنی پوری وضاحت کے ساتھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، تو یہ کافر لوگ حق بات کے ان تک پہنچ جانے کے بعد بھی اس کے بارے میں یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ۔
اور جب ان پر ( ف۱۵ ) پڑھی جائیں ہماری روشن آیتیں تو کافر اپنے پاس آئے ہوئے حق کو ( ف۱٦ ) کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے ( ف۱۷ )
ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں اور حق ان کے سامنے آ جاتا ہے تو یہ کافر لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے 8 ۔
اور جب ان پر ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں ( تو ) جو لوگ کفر کر رہے ہیں حق ( یعنی قرآن ) کے بارے میں ، جبکہ وہ ان کے پاس آچکا ، کہتے ہیں: یہ کھلا جادو ہے
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :8 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدرجہا بلند ہے ۔ ان کے کسی شاعر ، کسی خطیب ، اور کسی بڑے سے بڑے ادیب کے کلام کو بھی قرآن کی بے مثل فصاحت و بلاغت ، اس کی وجد آفرین خطابت ، اس کے بلند مضامین اور دلوں کو برما دینے والے انداز بیان سے کوئی مناسبت نہ تھی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام کی شان بھی وہ نہ تھی جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والے کلام میں نظر آتی تھی ۔ جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آ رہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی زبان اور قرآن کی زبان میں کتنا عظیم فرق ہے ، اور ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب و روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعاً کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی ۔ یہ چیز ان کے سامنے حق کو بالکل بے نقاب کر کے لے آتی تھی ۔ مگر وہ چونکہ اپنے کفر پر اڑے رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے ، اس لیے اس صریح علامت کو دیکھ کر سیدھی طرح اس کلام کو کلام وحی مان لینے کے بجائے یہ بات بناتے تھے کہ یہ کوئی جادو کا کرشمہ ہے ۔ ( ایک اور پہلو جس کے لحاظ سے وہ قرآن کو جادو قرار دیتے تھے ، اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ ۵ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 5 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار بےبسی مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے تکذیب و افترا ، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہو گیا ہے ۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ لیا ہے ۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا 22؀ۙ ) 72- الجن:22 ) ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ ) 69- الحاقة:44 ) ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے وہ غفور و رحیم ہے اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا ۔ سورہ فرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے ۔ فرمان ہے آیت ( وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا Ĉ۝ ) 25- الفرقان:5 ) ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہدے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ جو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں ۔ مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول حضرت ابن عباس اس آیت کے بعد آیت ( لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا Ą۝ۙ ) 48- الفتح:2 ) ، اتری ہے ۔ اسی طرح حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت قتادہ بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا Ĉ۝ۙ ) 48- الفتح:5 ) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مبارک ہو فرمائیے ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت ضحاک اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤ اور کس چیز سے روک دیا جاؤں؟ امام حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں امام ابن جریر اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک ۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بےخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہو گا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے حضرت ام العلاء فرماتی ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون آئے آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہوگئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لاچکے تو میرے منہ سے نکل گیا اے ابو السائب اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا تیرا اکرام ہی کرے گا ۔ اس پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ یقینا اس کا اکرام ہی کرے گا ۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ نے فرمایا سنو ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آپہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک نہر بہہ رہی ہے میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اعمال ہیں یہ حدیث بخاری میں ہے مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا ۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیے ۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع علیہ السلام نے انہیں جنتی کہا ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور حضرت ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو حضرت جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ پھر فرماتا ہے نبی تم کہدو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے ۔ واللہ اعلم ۔