Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ‌ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَـرَيۡتُهٗ فَلَا تَمۡلِكُوۡنَ لِىۡ مِنَ اللّٰهِ شَيـــًٔا‌ ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِ‌ؕ كَفٰى بِهٖ شَهِيۡدًاۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ‌ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿8﴾
کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا ہے آپ کہہ دیجئے! کہ اگر میں ہی اسے بنا لایا ہوں تو تم میرے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے تم اس ( قرآن ) کے بارے میں جو کچھ کہہ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
ام يقولون افترىه قل ان افتريته فلا تملكون لي من الله شيا هو اعلم بما تفيضون فيه كفى به شهيدا بيني و بينكم و هو الغفور الرحيم
Or do they say, "He has invented it?" Say, "If I have invented it, you will not possess for me [the power of protection] from Allah at all. He is most knowing of that in which you are involved. Sufficient is He as Witness between me and you, and He is the Forgiving the Merciful."
Kiya woh kehtay hain kay issay to iss ney khud ghar liya hai aap keh dijiye! Kay agar mein hi issay bana laya hun to tum meray liye Allah ki taraf say kissi cheez ka ikhtiyar nahi rakhtay tum iss ( quran ) kay baray mein jo kuch keh sunn rahey ho ussay Allah khoob janta hai meray aur tumharay darmiyan gawahee kay liye wohi kafi hai aur woh bakhshney wala meharban hai.
کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ اسے پیغمبر نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ؟ کہہ دو کہ : اگر میں نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے تو تم مجھے اللہ کی پکڑ سے ذرا بھی نہیں بچا سکو گے ۔ ( ٣ ) جو باتیں تم بناتے ہو وہ انہیں خوب جانتا ہے ۔ میرے اور تمہارے درمیان گواہ بننے کے لیے وہ کافی ہے اور وہی ہے جو بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
کیا کہتے ہیں انہوں نے اسے جی سے بنایا ( ف۱۸ ) تم فرماؤ اگر میں نے اسے جی سے بنالیا ہوگا تو تم اللہ کے سامنے میرا کچھ اختیار نہیں رکھتے ( ف۱۹ ) وہ خوب جانتا ہے جن باتوں میں تم مشغول ہو ( ف۲۰ ) اور وہ کافی ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ ، اور وہی بخشنے والا مہربان ہے ( ف۲۱ )
کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ رسول نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟9 ان سے کہو ، اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم مجھے خدا کی پکڑ سے کچھ بھی نہ بچا سکو گے ، جو باتیں تم بناتے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے ، میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لیے کافی ہے 10 ، اور وہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے 11 ۔
کیا وہ لوگ ( یہ ) کہتے ہیں کہ اس ( قرآن ) کو ( پیغمبر نے ) گھڑ لیا ہے ۔ آپ فرما دیں: اگر اسے میں نے گھڑا ہے تو تم مجھے اللہ ( کے عذاب ) سے ( بچانے کا ) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ، اور وہ ان ( باتوں ) کو خوب جانتا ہے جو تم اس ( قرآن ) کے بارے میں طعنہ زنی کے طور پر کر رہے ہو ۔ وہی ( اللہ ) میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے ، اور وہ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :9 اس سوالیہ طرز بیان میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بے حیا ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن خود گھڑ لانے کا الزام رکھتے ہیں؟ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہو سکتا ، اور ان کا اسے سحر کہنا خود اس امر کا صریح اعتراف ہے کہ یہ غیر معمولی کلام ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :10 چونکہ ان کے الزام کا محض بے اصل اور سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لیے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ پس یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کر کے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے ، جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو ، تو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے تم نہ آؤ گے ، لیکن اگر یہ خدا ہی کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے رد کر رہے ہو تو اللہ تم سے نمٹ لے گا ۔ حقیقت اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے ، اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ بالکل کافی ہے ۔ ساری دنیا اگر کسی کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازماً اسی کے حق میں ہو گا ۔ اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے ، مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو ، تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پائے گا ۔ لہٰذا الٹی سیدھی باتیں بنانے کے بجائے اپنے انجام کی فکر کرو ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :11 اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ فی الواقع یہ اللہ کا رحم اور اس کا درگزر ہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ زمین میں سانس لے رہے ہیں جنہیں خدا کے کلام کو افترا قرار دینے میں کوئی باک نہیں اور نہ کوئی بے رحم اور سخت گیر خدا اس کائنات کا مالک ہوتا تو ایسی جسارتیں کرنے والوں کو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لینا نصیب نہ ہوتا ۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ ہے کہ ظالمو ، اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آ جاؤ تو خدا کی رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے ، اور جو کچھ تم نے اب تک کیا ہے وہ معاف ہو سکتا ہے ۔