Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ وَكَفَرۡتُمۡ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى مِثۡلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسۡتَكۡبَرۡتُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿10﴾
آپ کہہ دیجئے! اگر یہ ( قرآن ) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور وہ ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو تو بیشک اللہ تعالٰی ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا ۔
قل ارءيتم ان كان من عند الله و كفرتم به و شهد شاهد من بني اسراءيل على مثله فامن و استكبرتم ان الله لا يهدي القوم الظلمين
Say, "Have you considered: if the Qur'an was from Allah , and you disbelieved in it while a witness from the Children of Israel has testified to something similar and believed while you were arrogant... ?" Indeed, Allah does not guide the wrongdoing people.
Aap keh dijiye! Agar yeh ( quran ) Allah hi ki taraf say ho aur tum ney issay na mana ho aur bani israeel ka aik gawah iss jaisi ki gawahee bhi dey chuka ho aur woh eman bhi la chuka ho aur tum ney sirkashi ki ho to be-shak Allah Taalaa zalimon ko raah nahi dikhata.
کہو کہ : ذرا مجھے یہ بتاأ کہ اگر یہ ( قرآن ) اللہ کی طرف سے ہو ، اور تم نے اس کا انکار کردیا ، اور بنو اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اس جیسی بات کے حق میں گواہی بھی دے دی ، اور اس پر ایمان بھی لے آیا ( ٥ ) اور تم اپنے گھمنڈ میں مبتلا رہے ( تو یہ کتنے ظلم کی بات ہے؟ ) یقین جانو کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا جو ظالم ہوں ۔
تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر وہ قرآن اللہ کے پاس سے ہو اور تم نے اس کا انکار کیا اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ ( ف۲۵ ) اس پر گواہی دے چکا ( ف۲٦ ) تو وہ ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا ( ف۲۷ ) بیشک اللہ راہ نہیں دیتا ظالموں کو ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ان سے کہو کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کر دیا ( تو تمہارا کیا انجام ہو گا13 ) ؟ اور اس جیسے ایک کلام پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے ۔ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے 14 ۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا ۔ ع
فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو اگر یہ ( قرآن ) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کر دیا ہو اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ ( بھی پہلی آسمانی کتابوں سے ) اس جیسی کتاب ( کے اترنے کے ذکر ) پر گواہی دے پھر وہ ( اس پر ) ایمان ( بھی ) لایا ہو اور تم ( اس کے باوجود ) غرور کرتے رہے ( تو تمہارا انجام کیا ہوگا؟ ) ، بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :13 یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے ایک دوسرے طریقہ سے سورہ حٰم السجدہ ، آیت 52 میں گزر چکا ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، تفسیر سورہ مذکور ، حاشیہ 69 ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :14 مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ۔ یہ واقعہ چونکہ مدینہ میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن جریر ) ، اور اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ضحاک ، ابن سیرین ، حسن بصری ، ابن زید ، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے ۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورۃ مکی ہے ۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے ، اس سیاق و سباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آجانا قابل تصور نہیں ہے ۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے ، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے ، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔ بظاہر یہی دوسرا قول زیادہ صحیح اور معقول محسوس ہوتا ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ اس گواہ سے مراد کون ہے ۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو اختیار کیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے ۔ اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہو تی ہے جو مفسر نیسا پوری اور ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کو ئی شخص نہیں ، بلکہ بنی اسرائیل کا عام آدمی ہے ۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید جو تعلیم تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کو ئی انوکھی چیز بھی نہیں ہے دنیا میں پہلی مرتبہ تمھارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو اور تم یہ عذر کر سکو ہم یہ نرالی باتیں کیسے مان لیں جو نوع انسانی کے سامنے کبھی آئی ہی نہ تھیں ۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے توراۃ اور دوسری کتب آسمانی کی شکل میں آ چکی ہیں ایک عام آ دمی ان کو مان چکا ہے ، اور یہ بھی تسلیم کر چکا ہے کہ اللہ کی وحی ان تعلیمات کے نزول کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ وحی اور یہ تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں ۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ تمہارا غرور و تکبر اور بے بنیاد و گھمنڈ ایمان لانے میں مانع ہے ۔