Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ كَانَ خَيۡرًا مَّا سَبَقُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ‌ ؕ وَاِذۡ لَمۡ يَهۡتَدُوۡا بِهٖ فَسَيَقُوۡلُوۡنَ هٰذَاۤ اِفۡكٌ قَدِيۡمٌ‏ ﴿11﴾
اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ ( دین ) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے ۔
و قال الذين كفروا للذين امنوا لو كان خيرا ما سبقونا اليه و اذ لم يهتدوا به فسيقولون هذا افك قديم
And those who disbelieve say of those who believe, "If it had [truly] been good, they would not have preceded us to it." And when they are not guided by it, they will say, "This is an ancient falsehood."
Aur kafiron ney emaandaron ki nisbat kaha kay agar yeh ( deen ) behtar hota to yeh log iss ki taraf hum say sabqat kerney na patay aur chonkay enhon ney iss quran say hidayat nahi paaee pus yeh keh den gay kay qadeemi jhoot hai.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ ایمان لانے والوں کے بارے میں یوں کہتے ہیں کہ : اگر یہ ( ایمان لانا ) کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اس بارے میں ہم سے سبقت نہ لے جاسکتے ۔ ( ٦ ) اور جب ان کافروں نے اس سے خود ہدایت حاصل نہیں کی تو وہ تو یہی کہیں گے کہ یہ وہی پرانے زمانے کا جھوٹ ہے ۔
اور کافروں نے مسلمانوں کو کہا اگر اس میں ( ف۲۸ ) کچھ بھلائی ہو تو یہ ( ف۲۹ ) ہم سے آگے اس تک نہ پہنچ جاتے ( ف۳۰ ) اور جب انہیں اس کی ہدایت نہ ہوئی تو اب ( ف۳۱ ) کہیں گے کہ یہ پرانا بہتان ہے ،
جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت نہ لے جا سکتے تھے 15 ۔ چونکہ انہوں نے اس سے ہدایت نہ پائی اس لیے اب یہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے 16 ۔
اور کافروں نے مومنوں سے کہا: اگر یہ ( دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے پہلے نہ بڑھتے ( ہم خود ہی سب سے پہلے اسے قبول کر لیتے ) ، اور جب ان ( کفار ) نے ( خود ) اس سے ہدایت نہ پائی تو اب کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ ( اور بہتان ) ہے
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :15 یہ ان دلائل میں سے ایک ہے جو قریش کے سردار عوام الناس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہکانے کیے لیے استعمال کرتے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ قرآن برحق ہوتا اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک صحیح بات کی طرف دعوت دے رہے ہوتے تو قوم کے سردار اور شیوخ اور معززین آگے بڑھ کر اس کو قبول کرتے ۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چند ناتجربہ کار لڑکے اور چند ادنٰی درجہ کے غلام تو ایک معقول بات کو مان لیں اور قوم کے بڑے بڑے لوگ ، جو دانا اور جہاندیدہ ہیں ، اور جن کی عقل و تدبیر پر آج تک قوم اعتماد کرتی رہی ہے ، اس کو رد کر دیں ۔ اس پر فریب استدلال سے وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اس نئی دعوت میں خرابی ہے ، اسی لیے تو قوم کے اکابر اس کو نہیں مان رہے ہیں ، لہذا تم لو گ بھی اس سے دور بھاگو ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :16 یعنی ان لوگوں نے اپنے آپ کو حق و باطل کا معیار قرار دے رکھا ہے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جس ہدایت کو یہ قبول نہ کریں وہ ضرور ضلالت ہی ہونی چاہیے ۔ لیکن یہ اسے نیا جھوٹ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے ، کیونکہ اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام یہی تعلیمات پیش کرتے رہے ہیں ، اور تمام کتب آسمانی جو اہل کتاب کے پاس موجود ہیں ، ان ہی عقائد اور ان ہی ہدایات سے بھری ہوئی ہیں ۔ اس لیے یہ اسے پرانا جھوٹ کہتے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک وہ سب لوگ بھی دانائی سے محروم تھے جو ہزاروں برس سے ان حقائق کو پیش کرتے اور مانتے چلے آ رہے ہیں ، اور تمام دانائی صرف انکے حصے میں آ گئی ہے ۔