Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
فَلَمَّا رَاَوۡهُ عَارِضًا مُّسۡتَقۡبِلَ اَوۡدِيَتِهِمۡ ۙ قَالُوۡا هٰذَا عَارِضٌ مُّمۡطِرُنَا‌ ؕ بَلۡ هُوَ مَا اسۡتَعۡجَلۡتُمۡ بِهٖ ‌ۚ رِيۡحٌ فِيۡهَا عَذَابٌ اَ لِيۡمٌۙ‏ ﴿24﴾
پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے یہ ابر ہم پر برسنے والا ہے ( نہیں ) بلکہ دراصل یہ ابر وہ ( عذاب ) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے ۔
فلما راوه عارضا مستقبل اوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا بل هو ما استعجلتم به ريح فيها عذاب اليم
And when they saw it as a cloud approaching their valleys, they said, "This is a cloud bringing us rain!" Rather, it is that for which you were impatient: a wind, within it a painful punishment,
Phir jabb unhon ney azab ko basoorat badal dekha apni wadiyon ki taraf aatay huye to kehnay lagay yeh abar hum per barasney wala hai ( nahi ) bulkay dar-asal yeh abar woh ( azab ) hai jiss ki tum jaldi ker rahey thay hawa hai jiss mein dard-naak azab hai.
پھر ہوا یہ کہ جب انہوں نے اس ( عذاب ) کو ایک بادل کی شکل میں آتا دیکھا جو ان کی وادیوں کا رخ کر رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ : یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا ۔ نہیں ! بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تم نے جلدی مچائی تھی ۔ ایک آندھی جس میں دردناک عذاب ہے ۔
پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا بادل کی طرح آسمان کے کنارے میں پھیلا ہوا ان کی وادیوں کی طرف آتا
پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا ـــــ نہیں 28 ، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے ۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں درد ناک عذاب چلا آ رہا ہے ،
پھر جب انہوں نے اس ( عذاب ) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ ( تو ) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے ، ( ایسا نہیں ) وہ ( بادل ) تو وہ ( عذاب ) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی ۔ ( یہ ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ( آرہا ) ہے
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :28 یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ ان کو یہ جواب کس نے دیا ۔ کلام کے انداز سے خود بخود یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ جواب تھا جو اصل صورت حال نے عملاً ان کو دیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بادل ہے جو ان کی وادیوں کو سیراب کرنے آیا ہے اور حقیقت میں تھا وہ ہوا کا طوفان جو انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے چلا آ رہا تھا ۔