Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
فَاِذَا لَقِيۡتُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰٓى اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡهُمۡ فَشُدُّوۡا الۡوَثَاقَ ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰى تَضَعَ الۡحَـرۡبُ اَوۡزَارَهَا ۛۚ  ذٰ لِكَ ‌ۛؕ وَلَوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَانْـتَصَرَ مِنۡهُمۡ  وَلٰـكِنۡ لِّيَبۡلُوَا۟ بَعۡضَكُمۡ بِبَعۡضٍ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ قُتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَلَنۡ يُّضِلَّ اَعۡمَالَهُمۡ‏ ﴿4﴾
تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو ۔ جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو ( پھر اختیار ہے ) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر تا وقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیا ر رکھ دے ۔ یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ( خود ) ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن ( اس کا منشا یہ ہے ) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعہ سے لے لے جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔
فاذا لقيتم الذين كفروا فضرب الرقاب حتى اذا اثخنتموهم فشدوا الوثاق فاما منا بعد و اما فداء حتى تضع الحرب اوزارها ذلك و لو يشاء الله لانتصر منهم و لكن ليبلوا بعضكم ببعض و الذين قتلوا في سبيل الله فلن يضل اعمالهم
So when you meet those who disbelieve [in battle], strike [their] necks until, when you have inflicted slaughter upon them, then secure their bonds, and either [confer] favor afterwards or ransom [them] until the war lays down its burdens. That [is the command]. And if Allah had willed, He could have taken vengeance upon them [Himself], but [He ordered armed struggle] to test some of you by means of others. And those who are killed in the cause of Allah - never will He waste their deeds.
To jabb kafiron say tumhari mud-bher ho to gardano per war maro jabb unko achi tarah kuchal dalo to abb khoob mazboot qaid-o-band say giriftar kero ( phir ikhtiyar hai ) kay khuwa ehsan rakh ker chor do ya fidya ley ker ta-waqt-e-kay laraee apnay hathyar rakh day. Yehi hukum hai aur agar Allah chahta to ( khud ) hi inn say badla ley leta lekin ( uska mansha yeh hai ) kay tum mein say aik ka imtehan doosray kay zariyey say ley ley jo log Allah ki raah mein shaheed ker diye jatay hain Allah Taalaa unkay aemaal hergiz zaya na keray ga.
اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے ، تو گردنیں مارو ، یہاں تک کہ جب تم ان کی طاقت کچل چکے ہو ، تو مضبوطی سے گرفتار کرلو ، پھر چاہے احسان کر کے چھوڑ دو ، یا فدیہ لے کر ( ٢ ) یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہوجائے ۔ ( ٣ ) تمہیں تو یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا ، لیکن ( تمہیں یہ حکم اس لیے دیا ہے ) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے ۔ ( ٤ ) اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں کرے گا ۔ ( ٥ )
تو جب کافروں سے تمہارا سامناہو ( ف۸ ) تو گردنیں مارنا ہے ( ف۹ ) یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو ( ف۱۰ ) تو مضبوط باندھو ، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو ( ف۱۱ ) یہاں تک کہ لڑائی اپنابوجھ رکھ دے ( ف۱۲ ) بات یہ ہے اور اللہ چاہتا تو آپ ہی ان سے بدلہ لیتا ( ف۱۳ ) مگر اس لئے ( ف۱٤ ) تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے ( ف۱۵ ) اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا ( ف۱٦ )
پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ، اس کے بعد ( تمہیں اختیار ہے ) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو ، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے8 ۔ یہ ہے تمہارے کرنے کا کام ۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا ، مگر ( یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے ) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزماۓ9 ۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا 10 ۔
پھر جب ( میدان جنگ میں ) تمہارا مقابلہ ( متحارب ) کافروں سے ہو تو ( دورانِ جنگ ) ان کی گردنیں اڑا دو ، یہاں تک کہ جب تم انہیں ( جنگی معرکہ میں ) خوب قتل کر چکو تو ( بقیہ قیدیوں کو ) مضبوطی سے باندھ لو ، پھر اس کے بعد یا تو ( انہیں ) ( بلامعاوضہ ) احسان کر کے ( چھوڑ دو ) یا فدیہ ( یعنی معاوضہِء رہائی ) لے کر ( آزاد کر دو ) یہاں تک کہ جنگ ( کرنے والی مخالف فوج ) اپنے ہتھیار رکھ دے ( یعنی صلح و امن کا اعلان کر دے ) ۔ یہی ( حکم ) ہے ، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان سے ( بغیر جنگ ) انتقام لے لیتا مگر ( اس نے ایسا نہیں کیا ) تاکہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے ، اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے تو وہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :8 اس آیت کے الفاظ سے بھی ، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آ جانے کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈبھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے ۔ آگے آیت 20 کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورہ حج کی آیت 39 اور سورہ بقرہ کی آیت 190 میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو ۔ اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیات 67 ۔ 69 بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ وہاں ارشاد ہوا ہے : کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے ۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی ۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے ۔ اس عبارت اور خصوصا اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو قید کرنے میں لگ گئے تھے ، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورہ محمد میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ۔ تاہم ، چونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا ، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورہ محمد کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو ۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ آیت سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 49 ) ۔ یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں ، اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جس طرح عمل کیا ہے ، اور فقہاء کرام نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : 1 ) ۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے ، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہو جائے ۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے ۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کر دیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں ۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے ، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں ۔ 2 ) ۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے ، خواہ ان پر احسان کرو ، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کر لو ۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، عطاء اور حماد بن ابی سلیمان رحمہم اللہ ، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں ، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جا سکتا ہے ۔ جب لڑائی ختم ہو گئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آگیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے ۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص رحمہما اللہ کی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں ۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ امام محمد رحمہ اللہ نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا ۔ 3 ) ۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالی کے حکم کا منشاء یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر میں 70 قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا ۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا ۔ بنی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر حوالے کیا تھا ، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے ، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا ۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علہی وسلم نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کر دیا جائے ۔ ان مستثنیات کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا ۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا ۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں ۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کر سکتی ہے ۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے ۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے ۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہو جائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کر لے تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جا سکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو ۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کر دیا جائے ، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے ۔ 4 ) ۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عام حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو ، یا فدیے کا معاملہ کر لو ۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کر دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے ۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے ۔ فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے ۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں ، ان کا تبادلہ کر لیا جائے ۔ ان سب مختلف صورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے ۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کر دیا ہے ۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کر سکتی ہے ۔ 5 ) ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے ، اس کی غذا اور لباس ، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج حکومت کے ذمہ ہے ۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے ، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور عملا بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں ۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استوصوا بالاسارٰی خیراً ، ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ ان میں سے ایک قیدی ، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے ۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے ، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے ، اس کے دانت تڑوا دیجیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگرچہ میں نبی ہوں ( سیرت بن ہشام ) ۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا ( ابن ہشام ) ۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی رہا ۔ جنگی قیدیوں سے برے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی ۔ 6 ) ۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے ۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے ، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہو جائے وہ تو آزاد کر دیا جائے گا ، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے ، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا ۔ مسند احمد ، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا ایک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۔ : لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح ۔ اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقینا فلاح پا جاتا ۔ یہی بت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے کہ اذا اسلم الاسیر فی ایدی المسلمیں فقش امن من القتل وھو رقیق ۔ جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہو جائے گا مگر غلام رہے گا ۔ اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا ( السیر الکبیر ، امام محمد ) ۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے ۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کر لے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کر لیتا ۔ 7 ) ۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں ۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے ۔ اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلا آزاد قرار دے دے ۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں عمل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو ۔ مثال کے طو پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا ، اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی ۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے ۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا ، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے ۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہم نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا ۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جاؤ ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو ۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کر لیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے ۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشتکار اور کسان کو چھوڑ دو ۔ 8 ) ۔ احسان کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قیدی کو بلا کسی فدیے اور معاوضے کے یونہی رہا کر دیا جائے ۔ یہ ایک خاص رعایت ہے جو اسلامی حکومت صرف اسی حالت میں کر سکتی ہے جبکہ کسی خاص قیدی کے حالات اس کے متقاضی ہوں ، یا توقع ہو کہ یہ رعایت اس قیدی کو ہمیشہ کے لیے ممنون احسان کر دے گی اور وہ دشمن سے دوست یا کافر مومن بن جائے گا ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دشمن قوم کے اسی شخص کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ پھر ہم سے لڑنے آ جائے کسی طرح بھی تقاضائے مصلحت نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے فقہائے اسلام نے بالعموم اس کی مخالفت کی ہے اور اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر امام مسلمین قیدیوں کو ، یا ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دینے میں مصلحت پائے تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ ( السیر الکبیر ) ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں اور قریب قریب سب میں مصلحت کا پہلو نمایاں ہے ۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوکان المطعم بن عدیٍّ حیًّا ثم کلّمنی فی ھٰؤلاء النتنیٰ لنزکتھم لہ ( بخاری ، ابوداؤد ، مسند احمد ) ۔ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ مجھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں یونہی چھوڑ دیتا ۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی تھی کہ آپ جب طائف سے مکہ معظمہ واپس ہوئے تھے اس وقت مطعم ہی نے آپ کو اپنی پناہ میں لیا تھا اور اس کے لڑکے ہتھیار باندھ کر اپنی حفاظت میں آپ کو حرم میں لے گئے تھے ۔ اس لیے آپ اس کے احسان کا بدلہ اس طرح اتارنا چاہتے تھے ۔ بخاری ، مسلم ، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ثمامہ ، تمہارا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے ، اگر مجھ پر احسان کریں گے تو ایسے شخص پر کریں گے جو احسان ماننے والا ہے ، اور اگر آپ مال لینا چاہتے ہیں تو مانگیے ، آپ کو دیا جائے گا ۔ تین دن تک آپ ان سے یہی بات پوچھتے رہے اور وہ یہی جواب دیتے رہے ۔ آخر کو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو ۔ رہائی پاتے ہی وہ قریب کے ایک نخلستان میں گئے ، نہا دھو کر واپس آئے ، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور عرض کیا کہ آج سے پہلے کوئی شخص میرے لیے آپ سے اور کوئی دین آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا ، مگر اب کوئی شخص اور کوئی دین مجھے آپ سے اور آپ کے دین سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے ۔ پھر وہ عمرہ کے لیے مکے گئے اور وہاں قریش کے لوگوں کو نوٹس دے دیا کہ آج کے بعد کوئی غلہ تمہیں یمامہ سے نہ پہنچے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم اجازت نہ دیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا اور مکہ والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کرنی پڑی کہ یمامہ سے ہمارے غلہ کی رسد بند نہ کرائیں ۔ بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ نے زبیر بن باطا اور عمرو بن سعد ( یا ابن سعدی ) کی جان بخشی کی ۔ زبیر کو اس لیے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانے میں جنگ بُعاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کو پناہ دی تھی ، اس لیے آپ نے اس کو حضرت ثابت کے حوالہ کر دیا تاکہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کر دیں ۔ اور عمر بن سعد کو اس لیے چھوڑا کہ جب بنی قریظہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہی شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا ( کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ غزوہ بنی المصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے ، اس وقت حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اس کو ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رہا کرایا اور پھر ان سے خود نکاح کر لیا ۔ اس پر تمام مسلمانوں نے یہ کہہ کر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا کہ یہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ دار ہو چکے ہیں ۔ اس طرح سو 100 خاندانوں کے آدمی رہا ہو گئے ( مسند احمد ۔ طبقات ابن سعد ۔ سیرت ابن ہشام ) ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے 80 آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ کے کیمپ پر اچانک شبخون مارنے کا ارادہ کیا ۔ مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا تاکہ اس نازک موقع پر یہ معاملہ لڑائی کا موجب نہ بن جائے ( مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی ، مسند احمد ) ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف کر دیا ، اور جنہیں مستثنی کیا تھا ان میں سے بھی تین چار کے سوا کوئی قتل نہ کیا گیا ۔ سارا عرب اس بات کو جانتا تھا کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کیے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں فتح پا کر جس عالی حوصلگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں معاف فرمایا اس سے اہل عرب کو یہ اطمینان حاصل ہو گیا کہ ان کا سابقہ کسی جبار سے نہیں بلکہ ایک نہایت رحیم و شفیق اور فیاض رہنما سے ہے ۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب کو مسخر ہونے میں دو سال سے زیادہ دیر نہ لگی ۔ جنگ حنین کے بعد جب قبیلہ ہوازن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حاضر ہوا تو سارے قیدی تقسیم کیے جا چکے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا یہ لوگ تائب ہو کر آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں ۔ تم میں سے جو کوئی بخوشی اپنے حصے میں آئے ہوئے قیدی کو بلا معاوضہ چھوڑنا چاہے وہ اس طرح چھوڑ دے ، اور جو معاوضہ لینا چاہے اس کو ہم بیت المال میں آنے والی پہلی آمدنی سے معاوضہ دے دیں گے ۔ چنانچہ چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضہ لینا چاہا انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا ، ( بخاری ، ابوداؤد ، مسند احمد ، طبقات ابن سعد ) ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم ہو چکنے کے بعد حکومت قیدیوں کو خود رہا کر دینے کی مجاز نہیں رہتی ، بلکہ یہ کام ان لوگوں کی رضا مندی سے ، یا ان کو معاوضہ دے کر کیا جا سکتا ہے جن کی ملکیت میں قیدی دیے جا چکے ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی بطور احسان قیدیوں کو رہا کرنے کی نظیریں مسلسل ملتی ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہُرمُزان کو اور مناذر اور میسان کے قیدیوں کو آزادی عطاء کی ( کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ 9 ) ۔ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے جب کہ فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لے کر ان کو رہا کیا گیا ( طبقات ابن سعد ۔ کتاب الاموال ) ۔ صحابہ کرام کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے بالعموم اس کو ناپسند کیا ہے ، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم روپیہ لے کر دشمن کے ایک آدمی کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پھر ہمارے خلاف تلوار اٹھائے ۔ لیکن چونکہ قرآن میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے ، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ اس پر عمل بھی کیا ہے ، اس لیے ایسا کرنا مطلقا ممنوع نہیں ہے ۔ امام محمد رحمہ اللہ السیر الکبیر میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ 10 ) ۔ کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے ۔ قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے ، ان کی رہائی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکنا پڑھنا سکھا دیں ۔ ( مسند احمد ، طبقات ابن سعد ، کتاب الاموال ) ۔ 11 ) ۔ قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں ملتی ہیں ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجا اور اس میں چند قیدی گرفتار ہوئے ۔ ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت بھی تھی جو حضرت سلمہ بن اکوع کے حصے میں آئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باصرار اس کو حضرت سلمہ سے مانگ لیا اور پھر اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے کئی مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا ( مسلم ۔ ابوداؤد ۔ طحاوی ۔ کتاب الاموال لابی عبید ۔ طبقات ابن سعد ) ۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو قید کر لیا ۔ اس سے کچھ مدت بعد ثقیف کے حلیف قبیلے ، بنی عقیل کا ایک آدمی مسلمانوں کے پاس گرفتار ہو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو طائف بھیج کر اس کے بدلے ان دونوں مسلمانوں کر رہا کرا لیا ۔ ( مسلم ، ترمذی ، مسند احمد ) ۔ فقہاء میں سے امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ تبادلہ نہیں کرنا چاہیے ، مگر دوسرا قول ان کا بھی یہی ہے کہ تبادلہ کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہو جائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ برآں ہو نے کی گنجائش ہے ۔ جو لوگ قرآن مجید کی اس آیت کا بس یہ مختصر سا مطلب لے لیتے ہیں کہ جنگ میں قید ہونے والوں کو یا تو بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے ، وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ جنگی قیدیوں کا معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے ، اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آیندہ کر سکتا ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :9 9 ۔ یعنی اللہ تعالی کو اگر محض باطل پرستوں کی سرکوبی ہی کرنی ہوتی تو وہ اس کام کے لیے تمہارا محتاج نہ تھا ۔ یہ کام تو اس کا یک زلزلہ یا ایک طوفان چشم زدن میں کر سکتا تھا ۔ مگر اس کے پیش نظر تو یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرائیں اور ان کے مقابلہ میں مجاہدہ کریں ، تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہو وہ اس کو دیا جائے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :10 10 ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کے مارے جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آدمی اپنی جان سے گیا اور اس کی ذات کی حد تک اس کا کیا کرایا سب ملیامیٹ ہو گیا ۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہداء کی قربانیاں خود ان کے لیے نہیں بلکہ صرف انہی لوگوں کے لیے نافع ہیں جو ان کے بعد اس دنیا میں زندہ رہیں اور ان کی قربانیوں سے یہاں متمتع ہوں ، تو وہ غلط سمجھتا ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود شہید ہونے والوں کے لیے یہ زیاں کا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے ۔
جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہو جائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو جائے دستی لڑائی شروع ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو ۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کر لو جب لڑائی ختم ہو چکے معرکہ پورا ہو جائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀ ) 8- الانفال:67 ) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو ۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں ۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا ۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل ، احسان ، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا ۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں ۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہو جائیں ۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا ۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب لڑائی آگئی ، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے ۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی ، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت ( وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39؀ ) 8- الانفال:39 ) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہو جائے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کر دیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورہ آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے ۔ آل عمران میں ہے آیت ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ١٤٢؁ ) 3-آل عمران:142 ) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورہ براۃ میں ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے ۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے ۔ جو درو یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے ۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا ۔ جیسے یہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ Ḍ۝ ) 10- یونس:9 ) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کر چکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کر چکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا ۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا ۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے ۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہو جائے گا ۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت ، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہو جائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40؀ ) 22- الحج:40 ) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑ جائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کر دیا ۔