Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ دَمَّرَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَلِلۡكٰفِرِيۡنَ اَمۡثَالُهَا‏ ﴿10﴾
کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر اس کا معائنہ نہیں کیا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا نتیجہ کیا ہوا؟ اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کافروں کے لئے اس طرح کی سزائیں ہیں ۔
افلم يسيروا في الارض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم دمر الله عليهم و للكفرين امثالها
Have they not traveled through the land and seen how was the end of those before them? Allah destroyed [everything] over them, and for the disbelievers is something comparable.
Kiya inn logon nay zamin mein chal phir ker iss ka moaeena nahi kiya kay inn say pehlay kay logon ka nateeja kiya hua? Allah ney unhen halak ker diya aur kafiron kay liye iss tarah ki sazayen hain.
بھلا کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے گذرے ہیں؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈالی ، اور کافروں کے لیے اسی جیسے انجام مقدر ہیں ۔
تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے ان سے اگلوں کا ( ف۲۲ ) کیسا انجام ہوا ، اللہ نے ان پر تباہی ڈالی ( ف۲۳ ) اور ان کافروں کے لیے بھی ویسی کتنی ہی ہیں ( ف۲٤ )
کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا ، اور ایسے نتائج ان کافروں کے لیے مقدر ہیں15 ۔
کیا انہوں نے زمین میں سفر و سیاحت نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے ۔ اﷲ نے ان پر ہلاکت و بربادی ڈال دی ۔ اور کافروں کے لئے اسی طرح کی بہت سی ہلاکتیں ہیں
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :15 اس فقرے کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جس تباہی سے وہ کافر دوچار ہوئے ویسی ہی تباہی اب ان کافروں کے لیے مقدر ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نہیں مان رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی تباہی صرف دنیا کے عذاب پر ختم نہیں ہو گئی ہے بلکہ یہی تباہی ان کے لیے آخرت میں بھی مقدر ہے ۔
تمام شہروں سے پیارا شہر ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں زمین کی سیر نہیں کی ؟ جو یہ معلوم کر لیتے ہیں اور اپنی آنکھوں دیکھ لیتے ہیں کہ ان سے اگلے جو ان جیسے تھے ان کے انجام کیا ہوئے ؟ کس طرح وہ تخت و تاراج کر دئیے گئے اور ان میں سے صرف اسلام و ایمان والے ہی نجات پا سکے کافروں کے لئے اسی طرح کے عذاب آیا کرتے ہیں پھر بیان فرماتا ہے مسلمانوں کا خود اللہ ولی ہے اور کفار بےولی ہیں ۔ اسی لئے احد والے دن مشرکین کے سردار ابو سفیان ( صخر ) بن حرب نے فخر کے ساتھ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خلفاء کی نسبت سوال کیا اور کوئی جواب نہ پایا تو کہنے لگا کہ یہ سب ہلاک ہوگئے پھر اسے فاروق اعظم نے جواب دیا اور فرمایا جن کی زندگی تجھے خار کی طرح کھٹکتی ہے اللہ نے ان سب کو اپنے فضل سے زندہ ہی رکھا ہے ابو سفیان کہنے لگا سنو یہ دن بدر کے بدلے کا دن ہے اور لڑائی تو مثل ڈولوں کے ہے کبھی کوئی اوپر کبھی کوئی اوپر ۔ تم اپنے مقتولین میں بعض ایسے بھی پاؤ گے جن کے ناک کان وغیرہ انکے مرنے کے بعد کاٹ لئے گئے ہیں میں نے ایسا حکم نہیں دیا لیکن مجھے کچھ برا بھی نہیں لگا پھر اس نے رجز کے اشعار فخریہ پڑھنے شروع کئے کہنے لگا ( اعل ھبل اعل ھبل ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا جواب دیں ؟ فرمایا کہو ( اللہ اعلی واجل ) یعنی وہ کہتا تھا ہبل بت کا بول بالا ہو جس کے جواب میں کہا گیا سب سے زیادہ بلندی والا اور سب سے زیادہ عزت و کرم والا اللہ ہی ہے ۔ ابو سفیان نے پھر کہا ( لنا العزی ولا عزی لکم ) ہمارا عزیٰ ( بت ) ہے اور تمہارا نہیں ۔ اس کے جواب میں بفرمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا ( اللہ مولانا ولا مولاکم ) اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہار مولا کوئی نہیں پھر جناب باری خبر دیتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جنت نشین ہوں گے اور کفر کرنے والے دنیا میں تو خواہ کچھ یونہی سا نفع اٹھا لیں لیکن ان کا اصلی ٹھکانا جہنم ہے ۔ دنیا میں ان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا اور پیٹ بھرنا ہے اسے یہ لوگ مثل جانوروں کے پورا کر رہے ہیں جس طرح وہ ادھر ادھر منہ مار کر گیلا سوکھا پیٹ میں بھرنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے اسی طرح یہ ہے کہ حلال حرام کی اسے کچھ تمیز نہیں ، پیٹ بھرنا مقصود ہے ، حدیث شریف میں ہے مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں ، جزا والے دن اپنے اس کفر کی پاداش میں ان کے لئے جہنم کی گوناگوں سزائیں ہیں ۔ پھر کفار مکہ کو دھمکاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے کہ دیکھو جن بستیوں والے تم سے بہت زیادہ طاقت قوت والے تھے ان کو ہم نے نبیوں کو جھٹلانے اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے تہس نہس کر دیا تم جو ان سے کمزور اور کم طاقت ہو اس رسول کو جھٹلاتے اور ایذائیں پہنچاتے ہو جو خاتم الانبیاء اور سید الرسل ہیں سمجھ لو کہ تمہارا انجام کیا ہو گا ؟ مانا کہ اس نبی رحمت کے مبارک وجود کی وجہ سے اگر دنیوی عذاب تم پر بھی نہ آئے تو اخروی زبردست عذاب تو تم سے دور نہیں ہو سکتے ؟ جب اہل مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار میں آکر اپنے آپ کو چھپایا اس وقت مکہ کی طرف توجہ کی اور فرمانے لگے اے مکہ تو تمام شہروں سے زیادہ اللہ کو پیارا ہے اور اسی طرح مجھے بھی تمام شہروں سے زیادہ پیارا تو ہے اگر مشرکین مجھے تجھ میں سے نہ نکالتے تو میں ہرگز نہ نکلتا ۔ پس تمام حد سے گزر جانے والوں میں سب سے بڑا حد سے گذر جانے والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نکل جائے یا حرم الہٰی میں کسی قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرے یا جاہلیت کے تعصب کی بنا پر قتل کرے پس اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری ۔