Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّسۡتَمِعُ اِلَيۡكَ‌ۚ حَتّٰٓى اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِكَ قَالُوۡا لِلَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا‌‌ اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ‏ ﴿16﴾
اور ان میں بعض ( ایسے بھی ہیں ) کہ تیری طرف کان لگاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب تیرے پاس سے جاتے ہیں تو اہل علم سے ( بوجہ کندذہنی والا پرواہی کے ) پوچھتے ہیں کہ اس نے ابھی کیا کہا تھا؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور وہ اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں ۔
و منهم من يستمع اليك حتى اذا خرجوا من عندك قالوا للذين اوتوا العلم ما ذا قال انفا اولىك الذين طبع الله على قلوبهم و اتبعوا اهواءهم
And among them, [O Muhammad], are those who listen to you, until when they depart from you, they say to those who were given knowledge, "What has he said just now?" Those are the ones of whom Allah has sealed over their hearts and who have followed their [own] desires.
Aur inn mein baaz ( aisay bhi hain kay ) teri taraf kaan lagatay hain yahan tak kay jabb teray pass say jatay hain to ehl-e-ilm say ( ba-waja kund zehni-o-laperwahee kay ) poochtay hain kay iss ney abhi kiya kaha tha? Yehi log hain jinn kay dilon per Allah ney mohar ker di hai aur woh apni khuawishon ki perwi kertay hain.
اور ( اے پیغمبر ) ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو تمہاری باتیں کانوں سے تو سنتے ہیں ، لیکن جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو جنہیں علم عطا ہوا ہے ان سے پوچھتے ہیں کہ : ابھی ابھی آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے کیا کہا تھا؟ ( ٨ ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے ، اور جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔
اور ان ( ف۳۸ ) میں سے بعض تمہارے ارشاد سنتے ہیں ( ف۳۹ ) یہاں تک کہ جب تمہارے پاس سے نکل کر جائیں ( ف٤۰ ) علم والوں سے کہتے ہیں ( ف٤۱ ) ابھی انہوں نے کیا فرمایا ( ف٤۲ ) یہ ہیں وہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کردی ( ف٤۳ ) اور اپنی خواہشوں کے تابع ہوئے ( ف٤۲ )
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا ؟25 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں ۔ 26 ۔
اور ان میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی طرف ( دل اور دھیان لگائے بغیر ) صرف کان لگائے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر ( باہر ) جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جنہیں علمِ ( نافع ) عطا کیا گیا ہے کہ ابھی انہوں نے ( یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ) کیا فرمایا تھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :25 یہ ان کفار و منافقین اور منکرین اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر بیٹھتے تھے اور آپ کے ارشادات ، یا قرآن مجید کی آیات سنتے تھے ، مگر چونکہ ان کا دل ان مضامین سے دور تھا جو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تھے ، اس لیے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سنتے تھے اور باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :26 یہ تھا وہ اصل سبب جس کی وجہ سے ان کے دل کے کان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے لیے بہرے ہو گئے تھے ۔ وہ اپنی خواہشات کے بندے تھے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیمات پیش فرما رہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں ، اس لیے اگر وہ کبھی آپ کی مجلس میں آ کر بتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے تو ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا ۔
بے وقوف ، کند ذہن اور جاہل منافقوں کی کند ذہنی اور بےعلمی ناسمجھی اور بےوقوفی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجود مجلس میں شریک ہونے کے کلام الرسول سن لینے کے پاس بیٹھے ہونے کے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔ مجلس کے خاتمے کے بعد اہل علم صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت کیا کیا کہا ؟ یہ ہیں جن کے دلوں پر مہر اللہ لگ چکی ہے اور اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے پڑ گئے ہیں فہم صریح اور قصد صحیح ہے ہی نہیں ، پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں انہیں خود اللہ بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطا فرماتا ہے اور انکی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے پھر فرماتا ہے کہ یہ تو اسی انتظار میں ہیں کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے ۔ تو یہ معلوم کرلیں کہ اس کے قریب کے نشانات تو ظاہر ہو چکے ہیں ، جیسے اور موقعہ پر ارشاد ہوا ہے آیت ( ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى 56؀ ) 53- النجم:56 ) یہ ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں سے قریب آنے والی قریب آچکی ہے ۔ اور بھی ارشاد ہوتا ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) ، قیامت قریب ہوگئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمایا آیت ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) لوگوں کا حساب قریب آ گیا پھر بھی وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ہو کر دنیا میں آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اس لئے کہ رسولوں کے ختم کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو کامل کیا اور اپنی حجت اپنی مخلوق پر پوری کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی شرطیں اور اسکی علامتیں اس طرح بیان فرما دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اس قدر وضاحت نہیں کی تھی جیسے کہ اپنی جگہ وہ سب بیان ہوئی ہیں ۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا قیامت کی شرطوں میں سے ہے چنانچہ خود آپ کے نام حدیث میں یہ آئے ہیں ۔ نبی التوبہ ، نبی الملحمہ ، حاشر جس کے قدموں پر لوگ جمع کئے جائیں عاقب جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیچ کی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو اٹھا کر فرمایا میں اور قیامت مثل ان دونوں کے بھیجے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو قیامت قائم ہو جانے کے بعد نصیحت و عبرت کیا سود مند ہو گی ؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23۝ۭ ) 89- الفجر:23 ) اس دن انسان نصیحت حاصل کر لے گا لیکن اس کے لئے نصیحت کہاں ؟ یعنی قیامت کے دن کی عبرت بےسود ہے ۔ اور آیت میں ہے آیت ( وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52؀ښ ) 34- سبأ:52 ) یعنی اس وقت کہیں گے کہ ہم قرآن پر ایمان لائے حالانکہ اب انہیں ایسے دور از امکان پر دسترس کہاں ہو سکتی ہے ؟ یعنی ان کا ایمان اس وقت بےسود ہے پھر فرماتا ہے اے نبی جان لو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے کوئی اور نہیں ، یہ دراصل خبر دینا ہے اپنی وحدانیت کا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ اس کے علم کا حکم دیتا ہو ۔ اسی لئے اس پر عطف ڈال کر فرمایا اپنے گناہوں کا اور مومن مرد و عورت کے گناہوں کا استغفار کرو صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( اللھم اغفرلی خطیتی وجھلی واسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی اللھم اغفرلی وجدی وخطی وعمدی وکل ذالک عندی ) یعنی اے اللہ میری خطاؤں کو اور میری جہالت کو اور میرے کاموں میں مجھ سے جو زیادتی ہو گئی ہو اس کو اور ہر چیز کو جسے تو مجھ سے بہت زیادہ جاننے والا ہے بخش ۔ اے اللہ میرے بےقصد گناہوں کو اور میرے عزم سے کئے ہوئے گناہوں کو اور میری خطاؤں اور میرے قصد کو بخش اور یہ تمام میرے پاس ہے ۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ اپنی نماز کے آخر میں کہتے ( اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی انت الھی لا الہ الا انت ) یعنی اے اللہ میں نے جو کچھ گناہ پہلے کئے ہیں اور جو کچھ پیچھے کئے ہیں اور جو چھپا کر کئے ہیں اور جو ظاہر کئے ہیں اور جو زیادتی کی ہے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے بخش دے تو ہی میرا اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو اپنے رب کی طرف توبہ کرو پس تحقیق میں اپنے رب کی طرف استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں ہر ایک دن ستر بار سے بھی زیادہ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن سرخس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں سے کھانا کھایا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ کو بخشے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تجھے بھی تو میں نے کہا کیا میں آپ کے لئے استغفار کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اپنے لئے بھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور باایمان عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کر ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے کھوے یا بائیں ہتھیلی کو دیکھا وہاں کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی جس پر گویا تل تھے ۔ اسے مسلم ، ترمذی ، نسائی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لا الہ الا للہ کا اور استغفر اللہ کا کہنا لازم پکڑو اور انہیں بکثرت کہا کرو اس لئے کہ ابلیس کہتا میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے ان دونوں کلموں سے ہلاک کیا ۔ میں نے جب یہ دیکھا تو انہیں خواہشوں کے پیچھے لگا دیا پس وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں ۔ ایک اور اثر میں ہے کہ ابلیس نے کہا اللہ مجھے تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم جب تک کسی شخص کی روح اس کے جسم میں ہے میں اسے بہکاتا رہوں گا پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی قسم ہے اپنی بزرگی اور بڑائی کی کہ میں بھی انہیں بخشتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں ۔ استغفار کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا دن میں ہیر پھیر اور تصرف کرنا اور تمہارا رات کو جگہ پکڑنا اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 60۝ۧ ) 6- الانعام:60 ) یعنی اللہ وہ ہے جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے ۔ ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝ ) 11-ھود:6 ) ، یعنی زمین پر جتنے بھی چلنے والے ہیں ان سب کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور وہ ان کے رہنے کی جگہ اور دفن ہونے کا مقام جانتا ہے یہ سب باتیں واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ ابن جریج کا یہی قول ہے اور امام جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مراد آخرت کا ٹھکانا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں تمہارا چلنا پھرنا دنیا میں اور تمہاری قبروں کی جگہ اسے معلوم ہے لیکن اول قول ہی اولیٰ اور زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔