فَهَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنۡ تَاۡتِيَهُمۡ بَغۡتَةً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُهَا ۚ فَاَنّٰى لَهُمۡ اِذَا جَآءَتۡهُمۡ ذِكۡرٰٮهُمۡ ﴿18﴾
تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا ۔
فهل ينظرون الا الساعة ان تاتيهم بغتة فقد جاء اشراطها فانى لهم اذا جاءتهم ذكرىهم
Then do they await except that the Hour should come upon them unexpectedly? But already there have come [some of] its indications. Then what good to them, when it has come, will be their remembrance?
To kiya yeh qayamat ka intezar ker rahe hain kay woh inn kay pass achanak aajaye yaqeenan iss ki alamaten to aa chuki hain phir jabkay inn kay pass qayamat aajaye enhen naseehat kerna kahan hoga?
اب کیا یہ ( کافر ) لوگ قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکایک ان پر آن پڑے؟ ( اگر ایسا ہے ) تو اس کی علامتیں تو آچکی ہیں ۔ پھر جب وہ آہی جائے گی تو اس وقت ان کے لیے نصیحت ماننے کا موقع کہاں سے آئے گا؟
تو کاہے کے انتظار میں ہیں ( ف٤۸ ) مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آجائے ، کہ اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں ( ف٤۹ ) پھر جب آجائے گی تو کہاں وہ اور کہاں ان کا سمجھنا ،
اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آ جاۓ29؟ اس کی علامات تو آچکی ہیں 30 ۔ جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا کونسا موقع باقی رہ جائے گا ؟
تو اب یہ ( منکر ) لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں ( قریب ) آپہنچی ہیں ، پھر انہیں ان کی نصیحت کہاں ( مفید ) ہوگی جب ( خود ) قیامت ( ہی ) آپہنچے گے
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :29
یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے ، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کے انقلاب سے ، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے ۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :30
قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خدا کے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس ، حضرت سہل بن سعد ساعدی ، اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہم کی روایات منقول ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا و السّاعۃ کھَاتین ۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے ، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے ۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے ۔