Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
وَيَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَةٌ ‌ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ مُّحۡكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيۡهَا الۡقِتَالُ‌ۙ رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ يَّنۡظُرُوۡنَ اِلَيۡكَ نَظَرَ الۡمَغۡشِىِّ عَلَيۡهِ مِنَ الۡمَوۡتِ‌ؕ فَاَوۡلٰى لَهُمۡ‌ۚ‏ ﴿20﴾
اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو پس بہت بہتر تھا ان کے لئے ۔
و يقول الذين امنوا لو لا نزلت سورة فاذا انزلت سورة محكمة و ذكر فيها القتال رايت الذين في قلوبهم مرض ينظرون اليك نظر المغشي عليه من الموت فاولى لهم
Those who believe say, "Why has a surah not been sent down? But when a precise surah is revealed and fighting is mentioned therein, you see those in whose hearts is hypocrisy looking at you with a look of one overcome by death. And more appropriate for them [would have been]
Aur jo log eman laye woh kehtay hain koi soorat kiyon nazil nahi ki gaee? Phir jab koi saaf matlab wali soorat nazil ki jati hai aur iss mein qitaal ka ziker kiya jata hai to aap dekhtay hain jinn logon kay dilon mein beemari hai woh aap ki taraf iss tarah dekhtay hain jaisay uss shaks ki nazar hoti hai jiss per mot ki beyhoshi taari ho pus boht behtar tha unn kay liye.
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ : کیا اچھا ہو کہ کوئی ( نئی ) سورت نازل ہوجائے؟ ( ١٠ ) پھر جب کوئی جچی تلی سورت نازل ہوجائے ، اور اس میں لڑائی کا ذکر ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے ، تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف اس طرح نظریں اٹھائے ہوئے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو ۔ بڑی خرابی ہے ایسے لوگوں کی ۔
اور مسلمان کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نہ اتاری گئی ( ف۵۳ ) پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی ( ف۵٤ ) اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے ( ف۵۵ ) کہ تمہاری طرف ( ف۵٦ ) اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مُرونی چھائی ہو ، تو ان کے حق میں بہتر یہ تھا کہ فرمانبرداری کرتے ( ف۵۷ )
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی ( جس میں جنگ کا حکم دیا جاۓ ) ۔ مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو32 ۔ افسوس ان کے حال پر ۔
اور ایمان والے کہتے ہیں کہ ( حکمِ جہاد سے متعلق ) کوئی سورت کیوں نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی واضح سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں ( صریحاً ) جہاد کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ ایسے لوگوں کو جن کے دلوں میں ( نفاق کی ) بیماری ہے ملاحظہ فرماتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف ( اس طرح ) دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہو ۔ سو ان کے لئے خرابی ہے
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :32 مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا ، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام رائے یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے ۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا ؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا ۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے ۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا ۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا ، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا ۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی ۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا ۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا ۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا ۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے ۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ ۔ کہتے ہیں ، خدایا ، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا ؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟ ( آیت 77 ) ۔
ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کر دیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 77؀ ) 4- النسآء:77 ) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کر دیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا ۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں ۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے ، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں ، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا ۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22؀ ) 47-محمد:22 ) ، اور سند سے ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے ، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا ۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے ۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا ۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کر چکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں ، زبانی میل جول ہو ، دلی بغض و عداوت ہو ، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی جاتی ہیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ واللہ اعلم ۔