Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
فَهَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَتُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَكُمۡ‏ ﴿22﴾
اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو ۔
فهل عسيتم ان توليتم ان تفسدوا في الارض و تقطعوا ارحامكم
So would you perhaps, if you turned away, cause corruption on earth and sever your [ties of] relationship?
Aur tum say yeh bhi baeed nahi kay tum ko agar hukumat mill jaye to tum zamin per fasad berpa kerdo aur rishtay natay tor dalo.
پھر اگر تم نے ( جہاد سے ) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ ، اور اپنے خونی رشتے کاٹ ڈالو ۔ ( ١١ )
تو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ ( ف٦۰ ) اور اپنے رشتے کاٹ دو ،
اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے 33 تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے34؟
پس ( اے منافقو! ) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم ( قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور ) حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے ( ان ) قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے ( جن کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے )
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :33 اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ ۔ ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :34 اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں ، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو ، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو ، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھرتے رہے ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے ، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو ، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالی تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے ۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، 83 ۔ 177 ۔ النساء ، 8 36 ۔ النحل ، 90 ۔ بنی اسرائیل ، 26 ۔ النور ، 22 ۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار ، خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے ، اس کے ذوی الارحام ہیں ۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے ۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے ۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے ، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصدا پہلو تہی کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے اس سے اتفاق فرمایا تھا ۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام بلاد اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو ، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے ۔