Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَشَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الۡهُدٰىۙ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡـــًٔا ؕ وَسَيُحۡبِطُ اَعۡمَالَهُمۡ‏ ﴿32﴾
یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکا اور رسول کی مخالفت کی اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت ظاہر ہو چکی یہ ہرگز ہرگز اللہ کا کچھ نقصان نہ کریں گے عنقریب ان کے اعمال وہ غارت کر دے گا ۔
ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله و شاقوا الرسول من بعد ما تبين لهم الهدى لن يضروا الله شيا و سيحبط اعمالهم
Indeed, those who disbelieved and averted [people] from the path of Allah and opposed the Messenger after guidance had become clear to them - never will they harm Allah at all, and He will render worthless their deeds.
Yaqeenan jinn logon ney kufur kiya aur Allah ki raah say logon ko roka aur rasool ki mukhalifat ki iss kay baad kay unn kay liye hidayat zahir ho chuki yeh hergiz hergiz Allah ka kuch nuksan na keren gay. Unqareeb inn kay aemaal woh ghaarat ker dey ga.
یقین رکھو کہ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا ہے ، اور پیغمبر سے دشمنی ٹھانی ہے باوجودیکہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہو کر آگئی تھی ، وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، اور عنقریب اللہ ان کا سارا کیا دھرا غارت کردے گا ۔ ( ١٢ )
بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے ( ف۸٤ ) روکا اور رسول کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ہدایت ان پر ظاہر ہوچکی تھی وہ ہرگز اللہ کو کچھ نقصان نہ پہچائیں گے ، اور بہت جلد اللہ ان کا کیا دھرا اَکارت کردے گا ( ف۸۵ )
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی ، درحقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے ، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا39 ۔
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور ( لوگوں کو ) اﷲ کی راہ سے روکا اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت ( اور ان سے جدائی کی راہ اختیار ) کی اس کے بعد کہ ان پر ہدایت ( یعنی عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت ) واضح ہو چکی تھی وہ اللہ کا ہرگز کچھ نقصان نہیں کر سکیں گے ( یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت کو گھٹا نہیں سکیں گے ) ، ٭ اور اﷲ ان کے ( سارے ) اعمال کو ( مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باعث ) نیست و نابود کر دے گا
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :39 اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جن کاموں کو انہوں نے اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کیا ہے ، اللہ ان سب کو ضائع کر دے گا اور آخرت میں ان کا کوئی اجر بھی رہ نہ پا سکیں گے ۔ دوسرا مطلب یہ کہ جو تدبیریں بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا راستہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں وہ سب ناکام و نامراد ہو جائیں گی ۔
نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہو گی ۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کر دیں گے ۔ امام محمد بن نصر مروزی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ کا خیال تھا کہ ( لا الہ الا اللہ ) کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اس پر اصحاب رسول اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کر دیں ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لئے امید رہتی تھی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے با ایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ سے کفر کرنے والے راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا اس کے بعد جناب باری عز اسمہ فرماتا ہے کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں زور وغلبہ میں تعداد و اسباب میں تم قوی ہو ۔ ہاں جبکہ کافر قوت میں ، تعداد میں ، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کر لیا پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا ۔ واللہ اعلم ۔