Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ لِيَزۡدَادُوۡۤا اِيۡمَانًا مَّعَ اِيۡمَانِهِمۡ‌ ؕ وَلِلّٰهِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۙ‏ ﴿4﴾
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون ( اور اطمینان ) ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں اور آسمانوں اور زمین کے ( کل ) لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالٰی دانا با حکمت ہے ۔
هو الذي انزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا ايمانا مع ايمانهم و لله جنود السموت و الارض و كان الله عليما حكيما
It is He who sent down tranquillity into the hearts of the believers that they would increase in faith along with their [present] faith. And to Allah belong the soldiers of the heavens and the earth, and ever is Allah Knowing and Wise.
Wohi hai jiss ney musalmano kay dilon mein sukoon ( aur itminan ) daal diya takay apnay eman kay sath hi sath aur bhi eman mein barh jayen, aur aasmano aur zamin kay ( kul ) lashkar Allah hi kay hain. Aur Allah Taalaa dana ba-hikmat hai.
وہی ہے جس نے ایمان والوں کے د لوں میں سکینت اتار دی ، ( ٤ ) تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ ہو ۔ اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کے ہیں ، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں اطمینان اتارا تاکہ انہیں یقین پر یقین بڑھے ( ف۷ ) اور اللہ ہی کی ملک ہیں تمام لشکر آسمانوں اور زمین کے ( ف۸ ) اور اللہ علم و حکمت والا ہے ( ف۹ )
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی6 تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں 7 ۔ زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے8 ۔
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں تسکین نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ ہو ( یعنی علم الیقین ، عین الیقین میں بدل جائے ) ، اور آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اﷲ ہی کے لئے ہیں ، اور اﷲ خوب جاننے والا ، بڑی حکمت والا ہے
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :6 سکینت عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں ، اور یہاں اللہ تعالی مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی ۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی ۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا ، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحا موت کے منہ میں جانا ہے ، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں ، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے ، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی ، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے ۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی ، اور جب ابو جندل رضی اللہ عنہ مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا ۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں ، اس وقت اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی پر ، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے ۔ اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال ، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے ۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا ۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا ۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :7 یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا ، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص ، تقوی اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے ۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے ، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان ، مال ، جذبات ، خواہشات ، اوقات ، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں ۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے ، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 2 ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 38 ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :8 مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر یہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں ۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے ۔
اطمینان و رحمت سکینہ کے معنی ہیں اطمینان رحمت اور وقار کے ۔ فرمان ہے کہ حدیبیہ والے دن جن باایمان صحابہ نے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لی اللہ نے ان کے دلوں کو مطمئن کر دیا اور ان کے ایمان اور بڑھ گئے اس سے حضرت امام بخاری وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ دلوں میں ایمان بڑھتا ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے لشکروں کی کمی نہیں وہ اگر چاہتا تو خود ہی کفار کو ہلاک کر دیتا ۔ ایک فرشتے کو بھیج دیتا تو وہ ان سب کو برباد اور بےنشان کر دینے کے لئے بس تھا لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ایمانداروں کو جہاد کا حکم دیا جس میں اس کی حجت بھی پوری ہو جائے اور دلیل بھی سامنے آجائے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ایمانداروں کو اپنی بہترین نعمتیں اس بہانے عطا فرمائے ۔ پہلے یہ روایت گذر چکی ہے کہ صحابہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کیا ہے؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری کہ مومن مرد و عورت جنتوں میں جائیں گے جہاں چپے چپے پر نہریں جاری ہیں اور جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور ان کی برائیاں دور اور دفع کر دے انہیں ان کی برائیوں کی سزا نہ دے بلکہ معاف فرما دے درگذر کر دے بخش دے پردہ ڈال دے رحم کرے اور ان کی قدر دانی کرے دراصل یہی اصل کامیابی ہے جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت ( فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ١٨٥؁ ) 3-آل عمران:185 ) ، یعنی جو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ پھر ایک اور وجہ اور غایت بیان کی جاتی ہے کہ اس لئے بھی کہ نفاق اور شرک کرنے والے مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے احکام میں بدظنی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کے ساتھ برے خیال رکھتے ہیں یہ ہیں ہی کتنے؟ آج نہیں تو کل ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اس جنگ میں بچ گئے تو اور کسی لڑائی میں تباہ ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل اس برائی کا دائرہ انہی پر ہے ان پر اللہ کا غضب ہے یہ رحمت الہی سے دور ہیں ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے دوبارہ اپنی قوت ، قدرت اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں سے انتقام لینے کی طاقت کو ظاہر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے ۔