Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا ۙ‏ ﴿18﴾
یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی ۔
لقد رضي الله عن المؤمنين اذ يبايعونك تحت الشجرة فعلم ما في قلوبهم فانزل السكينة عليهم و اثابهم فتحا قريبا
Certainly was Allah pleased with the believers when they pledged allegiance to you, [O Muhammad], under the tree, and He knew what was in their hearts, so He sent down tranquillity upon them and rewarded them with an imminent conquest
Yaqeenan Allah Taalaa momino say khush hogaya jabkay woh darakht talay tujh say bait ker rahey thay unn kay dilon mein jo tha ussay uss ney maloom kerliya aur unn per itminaan nazil farmaya aur unhen qareeb ki fatah inayat farmaee.
یقینا اللہ ان مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا ۔ ( ١٥ ) اس لیے اس نے ان پر سکینت اتار دی ، اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرما دی ۔ ( ١٦ )
بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ( ف٤٤ ) تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے ( ف٤۵ ) تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا ( ف٤٦ )
اللہ مومنوں سےخوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے32 ۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا ، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی33 ، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی ،
بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ ( حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ، سو جو ( جذبۂ صِدق و وفا ) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان ( کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ ( خیبر ) کا انعام عطا کیا
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :32 یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعمین سے لی گئی تھی ۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے ۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے ۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے ۔ اپنے جنگی مستقر ( مدینہ ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا ، صرف 13 میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہار جاتے ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالی نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو ، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے ۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے ، وہ شاید اللہ سے یہ بدگمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی ، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ کر اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی ، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا ۔ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولی ابن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہوگئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا ( طبقات ابن سعد ، ج 2 ، ص 100 ) ۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا ( ص 105 ) ۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃ القضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے ، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی ۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، چھوڑو ، اس تکلف کی کیا حاجت ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :33 یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہرحال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو ۔
چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت الرضوان ہوئی تھی ۔ حضرت عبدالرحمن نے واپس آکر یہ قصہ حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا پھر حضرت سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ جاننے والے ہو ۔ پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اور ماننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کر لیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہو گیا پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے ۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی ۔ اسی لئے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا ۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آچکے ہیں ۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18؀ۙ ) 48- الفتح:18 ) میں ہے ۔ حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی ، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے گو کئی سال تک وہاں رہے ۔